محترم رؤف کلاسرا ۔۔۔ آپ کا ہدف غلط ہے۔

یہ تحریر آپ کے 2 اپریل کے ولاگ کے جواب میں ہے۔

صرف دو باتیں آپ کے سامنے رکھنا مقصود ہے۔

مسابقتی (کمپیٹیشن) کمیشن نے مختلف کمپنیوں کو جرمانے کیے ہیں، جن کا ذکر آپ نے کسی قدر تفصیل سے کیا، اور انھوں نے عدالتوں سے سٹے آرڈر لے لیے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے ایک کمپنی کو سٹے آرڈر لیے ہوئے دس برس کا عرصہ گزر گیا، اور جرمانہ ادا نہیں ہوا۔ اس سے یہ باور ہوتا ہے کہ عدالتیں جرمانوں کی عدم ادائیگی میں ان کمپنیوں کے ساتھ ملوث ہیں۔ ممکن ہے ہوں بھی۔ اور اگر مسابقتی کمیشن اور حکومتیں دونوں اب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں، تو یہ بھی جرمانے کی عدم ادائیگی میں ان کمپنیوں کے ساتھ ملوث ہیں۔ یعنی یہ ریاستی اشرافیہ کا ایک کھیل ہے۔ یہ سب آئین، قانون اور اداروں کے آئینی اور قانونی مینڈیٹ کی خلاف ورزی …

میرے پاس تم ہو’’ میں کچھ تو جادو تھا‘‘

میں نے یہ ڈرامہ نہیں دیکھا۔ ہاں، مگر اس کی مقبولیت کو ضرور دیکھا۔ یہ یہی مقبولیت ہے، جس نے مجھے اس کے بارے میں کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔

ہمارے گھر میں بھی یہ ڈرامہ دیکھا جاتا تھا۔ اس پر گفتگو بھی ہوتی تھی۔ اسی گفتگو سے اور پھر سوشل میڈیا سے اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا چلتا رہتا تھا۔

صاف بات ہے اس ڈرامے میں کچھ تو جادو تھا، اسی لیے تو لوگ خاص طور پر عورتیں اس میں غیرمعمولی دلچسپی رکھتی تھیں۔ اور پھر اختتام تک پہنچتے پہنچتے، اس نے سارے میڈیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

پھر اس کے ایک کردار، دانش، کا جو انجام دکھایا گیا، اس پر جو ہنگامہ برپا ہوا، وہ علاحدہ ایک قصہ ہے۔ اور ایک ایسا قصہ، جس کا سایہ سیاست پر بھی پڑا۔ جتنی جاندار ’’میمز‘‘ (Memes) ’’دانش‘‘ کے بارے میں تخلیق ہوئیں، اور جتنی تیز …

What should we (the civil society) be doing in India and Pakistan? A conversation between an Indian and a Pakistani

Jayant Bhandari is an Indian who left India and settled in Canada. I never met him. He’s a Facebook friend. His posts generate thoughtful discussions and that’s how we both found each other in a good friendly relation.

I did try to leave Pakistan during my teen years, and failed. Later I abandoned the idea of leaving the country for obvious “reasons.” I wanted to do my bit to free our people from the pseudo shackles made of unfounded notions by the Riyasati Ashrafiya (ریاستی اشرافیہ) of Pakistan.

What is common between Jayant and I is the deep concern for the freedom, well-being and happiness of our respective people. And no doubt for the larger humanity too.

Early this January one post of Jayant attracted my attention. It was an excerpt from one of his articles: First World, Third World.

“Irrespective of the merit of what Trump did, those who …

آئین کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہو گیا تھا، پھر تردد کیسا

نوٹ: یہ تحریر https://nayadaur.tv پر شائع نہیں ہو سکی۔

ابھی جب خصوصی عدالت نے جینرل مشرف کے خلاف ’’سنگین غداری‘‘ کے مقدمے میں فیصلہ سنایا، تو اس پر آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج میں غم و غصے کے ردِ عمل کا اظہار نہ صرف غیرآئینی اور خلافِ آئین تھا، بلکہ یہ انتہائی غیرضروری اور غیراخلاقی بھی تھا۔

بات سیدھی سی ہے کہ موجودہ طور پر 1973 کا آئین نافذالعمل ہے۔ یہ یہی آئین ہے، جو پاکستان کی ریاست کو وجود میں لایا ہے۔ اسی آئین نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کو وجود دیا ہے۔ اسی آئین نے دوسرے تمام آئینی اداروں کو وجود بخشا ہے۔ ’’فوج‘‘ کا وجود بھی اسی آئین کا مرہونِ منت ہے۔ آئین نہ ہو، نہ تو اس ریاست کا وجود قائم رہے گا، نہ ہی دوسرے اداروں کا، اور نہ ہی فوج کا۔

لہٰذا، آئین جس جرم کو ’’سنگین جرم‘‘ قرار دیتا ہے، اگر …

ریاست کو نئے سرے سے آئین کے مطابق ڈھالنا ہو گا

نوٹ: یہ تحریر 13 دسمبر 2019 کو ’’نیا دور‘‘ پر شائع ہوئی۔

https://urdu.nayadaur.tv/26108/

لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلا کا دھاوا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔

تو پھر خرابی کہاں ہے؟

سوال تو یہ ہے کہ خرابی کہاں نہیں؟

بس ایک آئین ہے، جس سے امید باندھی جا سکتی ہے۔ مگر آئین تو محض ایک اخلاقی دستاویز ہے۔ اس پر عمل تو ہوتا نہیں۔

طاقت ور گروہ اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ ریاستی اشرافیہ، اور اس کے مختلف طبقات، جیسے کہ سیاسی اشرافیہ، فوجی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ، وغیرہ، اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ اشرافیہ کے طبقات نے ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ آئین اور قانون کو اپنی ضرورت اور فائدے کے مطابق ڈھالتے اور توڑمروڑ لیتے ہیں۔

یعنی جیسا کہ عیاں ہے کہ ریاست لوگوں کے لیے ہوتی ہے، لوگ ریاست کے لیے نہیں۔ مگر …

توسیع کی سیاست

سیاسی طاقت کے ریاستی ایوانوں میں کیا سازشیں ہوتی ہیں۔ ہم بےچارے عام شہریوں کو کیا پتا۔ اخبار، ریڈیو اور ٹی وی چینل جو خبر دیتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے جا رہا ہے۔

ایک بات صاف ہے کہ ریاست، حکومت جس بات کا انکار کرتی ہیں، وہ ہو کر رہتی ہے۔ جس نے سی او اے ایس کو توسیع دی، اور جس نے توسیع لی، ان سمیت متعدد لوگوں نے انکار کیا تھا کہ توسیع نہیں دی جائے گی، توسیع نہیں لی جائے گی۔ مگر توسیع دے دی گئی ہے، توسیع لے لی گئی ہے۔

یہی سبب ہے کہ ریاست اور حکومت کی کسی بات پر اعتبار کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

ساری سیاست ایک طرف اور یہ حقیقت ایک طرف کہ ریاست، حکومت اور عام شہریوں کے درمیان ایک بڑا خلا حائل ہو چکا ہے۔

یعنی ریاست اور …

سیاست کی سماجی جڑیں

سیاسی قضیے: [25 ستمبر، 2018]

ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست، بالعموم، درپیش معاملات پر مرتکزکیوں ہوتی ہے؟ جیسے کہ ٹیکس کے معاملات؛ لوگوں کی زندگیوں پر حکومت کا کنٹرول؛ وغیرہ۔

ترقی پذیر و پسماندہ ملکوں کی سیاست، بالعموم، درپیش معاملات کے بجائے غیرضروری اور فروعی معاملات پر مرتکز کیوں ہوتی ہے؟ جیسے کہ جیالا، لیگیا، انصافیا، وغیرہ، ہونا؛ شخصیت پسندی؛ وغیرہ۔

اس ضمن میں، میں اس رائے پر پہنچا ہوں کہ ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کی سیاست کا تعین  زیادہ تر ان کی سماجیات سے ہوتا ہے۔ یعنی سماجیات سے متعلق معاملات، سیاسیات سے متعلق معاملات کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں، بلکہ بڑی حد تک ان کا تعین بھی کرتے ہیں۔

جیسے کہ ایک معاشرے کی سماجی زندگی اگر ابھی افراد کے مابین، ناپسندیدگی، امتیاز، بغض، کینہ، جلن، حسد، رقابت، کراہت، نفرت، دشمنی، انتقام، غصے، ’’شریکا‘‘، اشتعال، ظلم، سادیت، مساکیت، وغیرہ، سے عبارت ہے، تو یہ چیزیں سیاست …

!میں‌ خود سے شرمندہ ہوں

سیاسی قضیے: یکم جولائی، 2018

میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا، جو سراسر بے مایہ تھا۔

تربیت، دیانت داری کے چلن پر ہوئی۔ کسی کو برا نہیں کہنا۔ کسی کو دھوکہ نہیں دینا۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا۔

یہ اخلاقی باتیں اچھی بھی لگیں۔ کوشش کی زندگی ان کے مطابق گزاروں۔

وہ دنیا ایک عجیب دنیا تھی، بھَری پُری۔ دلچسپیاں ہی دلچسپیاں، اطمینان ہی اطمینان۔ کوئی محرومی نہیں۔

پھر شعور نے آنکھ کھولی۔ اپنی چھوٹی سی دنیا سے باہر نکلا۔ بہت کچھ دیکھا اور سمجھا۔

پہلا فکری سانچہ، جس کی تعلیم ان دنوں میسر تھی اور جو مجھے بھی منتقل ہوئی، اس کی صورت گری ’’سوشلزم‘‘ سے ہوئی تھی۔

اب محرومیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ ہر محرومی، استحصال کا نتیجہ تھی۔

مگر میں رکنے والا نہیں تھا۔ سوشلسٹ سے آگے بڑھ کر، مارکس پسند بن گیا۔

پھر تعلیم ختم ہوتے ہوتے، یہ سب کچھ ہوَا ہو گیا، …

نواز شریف کیا کرنا چاہتے ہیں، انھیں صاف صاف بتانا ہو گا

سیاسی قضیے:17  جولائی، 2018

نواز شریف 1999 کے مارشل لا کے بعد جس مقام پر پہنچے تھے، آج ایک مرتبہ پھر مارشل لا کے بغیر اسی مقام پر پہنچ چکے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ لوگ سزا سے بچنے کے لیے پاکستان سے بھاگ جاتے ہیں، اور نواز شریف خود بھی ایسا کر چکے ہیں، مگر اس مرتبہ وہ سزا بھگتانے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہ کچھ عزائم رکھتے ہیں۔

ان سے متعلق ایک اور بات کہی جا رہی ہے کہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں، لہٰذا، وہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی۔ مگر میرے تحفظات، مجھے ان باتوں پر یقین نہیں کرنے دیتے۔ میرا موقف یہ ہے کہ نواز شریف کو کھل کر بتانا چاہیے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، اور کیسے کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں اپنا ایجینڈا واضح طور پر …

سیاست اور میثاقِ وفاداری

سیاسی قضیے: 21 مئی،2018

کوئی بھی ہوش مند اور ذی عقل شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ ایک ہی کشتی میں سوار افراد کی شکست و فتح جدا جدا ہو گی۔ کیونکہ اگر کشتی ڈوبتی ہے، تو غالب امکان یہی ہے کہ کشتی میں سوار ہر فرد ڈوب جائے گا۔

مگر سیاست دان ایک ایسی مخلوق ہو سکتے ہیں، جو ایسا سوچ بھی سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے نشئی (’’جہاز‘‘) ہیں، جو اپنے نشے کی خاطر اپنے ساتھی نشئی کو بھی قتل کر دیتے ہیں!

سیاست دان کسی بھی ملک کے ہوں، ان میں سے بیشتر ایسا ہی سوچتے اور ایسا ہی کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارا پالا پاکستانی سیاست دانوں سے ہے، لہٰذا، یہاں انھی کا رونا رویا جائے گا۔

کسی ملک کی سیاسی حدود، اس کی تشکیل کرتی ہیں۔ بلکہ اصل میں یہ آئین ہوتا ہے، جن میں ان …

اگر ملک کے معاملات آئین کے مطابق نہیں چلا سکتے، تو آئین کو تحلیل کر دیں

سیاسی قضیے: اتوار 11 مارچ، 2018

ایک جانور بھی کسی جگہ رہتا ہے تو اسے اس جگہ سے کچھ نہ کچھ لگاؤ ہو جاتا ہے۔ مگر یہ پاکستان کیسا ملک ہے، اس کے اشرافی طبقات کو ستر برس بعد بھی اس ملک، اس کی زمین، اس کے لوگوں سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ ملک کی سیاست اور معیشت پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مالِ غنیمت کو لوٹنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اور یہی وہ سبب ہے کہ ہر ادارہ سیاسی ریشہ دوانیوں سے گہنایا ہوا ہے۔

زیادہ دور نہیں جاتے۔ صرف گذشتہ دو حکومتوں کو پیشِ نظر رکھ لیں، یعنی پیپلز پارٹی اور حالیہ مسلم لیگ ن کی حکومت۔ ابھی اس قضیے کو رہنے دیتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا اور ان کی کارکردگی کیسی رہی۔ ابھی صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ کیا جاتا رہا۔ غالباً انھیں ایک …

سیاست کے سینے میں آئین کیوں نہیں دھڑکتا؟

سیاسی قضیے: منگل 6 مارچ، 2018

چند برس قبل، میں نے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کی مختلف دستاویزات دوبارہ دیکھنی شروع کیں، جن میں ان کی طرف سے شائع ہونے والے تجزیات، رپورٹیں، سالانہ جائزے، وغیرہ، شامل تھے۔ یہ چیزیں میرے پاس پہلے سے دستیاب تھیں، کیونکہ میں خود بائیں بازو سے وابستہ رہا تھا۔

ان دستاویزات کے مطالعے کے دوران، جس چیز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ’’آئین‘‘ کے ذکر کا مفقود ہونا تھا۔ ان میں قریب قریب تمام دستاویزات 1973 کے بعد سے تعلق رکھتی تھیں، مگر ان کے پس منظر میں ’’آئین‘‘ کہیں موجود نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، پاکستان سوشلسٹ پارٹی، یا مزدور کسان پارٹی کی دستاویزات۔

کیا یہ حیران کن امر نہیں!

سوال یہ ہے کہ کیا آئین کو سامنے رکھے بغیر، کوئی سیاسی گفتگو بامعنی ہو سکتی ہے، خواہ آئین کو تبدیل کرنے کی بات ہی کیوں نہ ہو …

Quaid’s 11 August (1947) Address Be made Substantive Part of the Constitution

Since long, a controversy has been raging as to what kind of state Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah wanted Pakistan to be: a religious state or a secular state. Fortunately, that controversy precludes certain extremes, for instance, it is generally understood and admitted that Quaid never wanted Pakistan to be a theocratic or a socialist state. That amounts to saying that the controversy focuses mainly on whether it was an “Islamic” state or a “secular” state that Quaid may have envisioned.

That controversy has its roots in what Quaid himself said, that is, the speeches and addresses he delivered on various occasions. Both of the camps quote and cite inconsistent statements and argue for their case. That’s what makes the controversy complicate manifold.

Apart from such dishonesties with the help of which concocted statements are attributed to Quaid; or out of the context meanings are drawn from his statements; or this …

Article 184 – interpreting it paradoxically

As far as the interpretation of the article 184 is concerned, common-sense understanding is altogether different. It has three clauses that form the whole of this article. Its title is: The Original Jurisdiction of Supreme Court.

The first clause states: (1) The Supreme Court shall, to the exclusion of every other court, have original jurisdiction in any dispute between any two or more governments.

The second clause states: (2) In the exercise of the jurisdiction conferred on it by clause (1), the Supreme Court shall pronounce declaratory judgments only.

The third and the last clause states: (3) Without prejudice to Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter 1 of Part II is involved, have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article.…

Cynicism and the politics in Pakistan

Here is the 1st part of this article: Cynicism in Pakistan

Cynicism and the politics in Pakistan

Among other things, political cynicism destroys whatever little chance may exist for dialogue in a deteriorating situation. This I learned from our own company of friends. Frankly, that learning came at the cost of that company’s dissolution.
Actually we were three to five friends who used to gather in a restaurant for chatting after a week or so, regularly. One friend was too adamant to sustain a dialogue. It was really next to impossible to converse with him. You say one thing and he will trash it without any consideration. No doubt, he was fond of conspiracy theories, and thus for him it was so easier to reject our views without having any recourse to reason. His manner of rejecting our views was so scornful that one could only bear it by blowing

Pakistani philosophers and politics

The two noblest professions are teaching and politics. [Aristotle]
Back in 2002 when the 35th Annual Session of Pakistan Philosophical Congress held in the Bukhari Auditorium, Government College (now G. C. University), Lahore. Dr. Naeem Ahmad was Secretary of the PPC (Dr. Naeem had been Chairman Department of Philosophy, University of the Punjab, Lahore),  and well before the start of the proceedings I had time and time again requested him to allow me to present a Resolution in its General Body meeting. He was positive. On March 16, while the proceedings ended, late in the evening meeting of the General Body of the Congress was in progress. When all the items on the agenda, such as issues relating to the next Congress, elections of the office-bearers, stood settled, Dr. Naeem announced the closing of the Congress.
I was dumbstruck; yet in a second I decided: it’s now or never.

Depoliticization and its causes

Here is the first part of this article: A depoliticized Pakistan on the rampage

The 2nd and the final part: Depoliticization and its causes

What’s a depoliticized Pakistan; how is it different from a politically apathetic Pakistan; how is it damaging both for the society and its state; who does now represent it, such questions were discussed in A depoliticized Pakistan on the rampage. In the present piece, some other questions will be dwelt on such as: why doesn’t a depoliticized India or Bangladesh exist in India or Bangladesh, for example?  Why that’s so only with Pakistan? Why is Pakistan so fecund for such elements? What are the elements that feed milk and butter to a depoliticized Pakistan?

Since long it has been my contention that the main culprit for the backward Pakistan is Politicians. In this case also, the main culprit for a depoliticized Pakistan is again Politicians.

A depoliticized Pakistan on the rampage

The pivot of politics is always seeking power, so that a political party is able, so to say, to implement its program on the basis of which it wins voters’ mandate. That’s an ideal statement of an ideal polity! In reality it doesn’t happen like that. There are betrayals, treacheries, and opportunism on the part of political parties. There is perennial interference, for instance in the case of Pakistan, by the players who are external to the political realm but are always intent upon unleashing political instability and uncertainty in the country. Also, there are other elements different from both of the above, who now and then venture to seek power but in non-political ways. For such elements the society of Pakistan has always proved unimaginably fertile. That’s what may be termed a depoliticized Pakistan!
Let’s try to understand what it is

The Political Kingdom of Pakistan

The Government of India Act 1935 declared “Pakistan” only as an independent dominion. Then in the constitution of 1956, the state was named as the “Islamic Republic of Pakistan.” However, when the constitution of 1962 was promulgated, the state of Pakistan found a new name, “Republic of Pakistan” with the prefix “Islamic” dropped. The same was restored to its original position in 1963. Down the road, the constitution of 1973 retained this nomenclature for the state of Pakistan; so the name resonates to this day.
But one question has perennially been raising its head through the 7 decades of the history of Pakistani state: Did this naming, renaming, i.e. conversion and neutralization of the state of Pakistan make any difference to the life of the ordinary citizens of Pakistan? Has the politics which produced, abrogated, suspended or put in abeyance these constitutions