!میں‌ خود سے شرمندہ ہوں

سیاسی قضیے: یکم جولائی، 2018

میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا، جو سراسر بے مایہ تھا۔

تربیت، دیانت داری کے چلن پر ہوئی۔ کسی کو برا نہیں کہنا۔ کسی کو دھوکہ نہیں دینا۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا۔

یہ اخلاقی باتیں اچھی بھی لگیں۔ کوشش کی زندگی ان کے مطابق گزاروں۔

وہ دنیا ایک عجیب دنیا تھی، بھَری پُری۔ دلچسپیاں ہی دلچسپیاں، اطمینان ہی اطمینان۔ کوئی محرومی نہیں۔

پھر شعور نے آنکھ کھولی۔ اپنی چھوٹی سی دنیا سے باہر نکلا۔ بہت کچھ دیکھا اور سمجھا۔

پہلا فکری سانچہ، جس کی تعلیم ان دنوں میسر تھی اور جو مجھے بھی منتقل ہوئی، اس کی صورت گری ’’سوشلزم‘‘ سے ہوئی تھی۔

اب محرومیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ ہر محرومی، استحصال کا نتیجہ تھی۔

مگر میں رکنے والا نہیں تھا۔ سوشلسٹ سے آگے بڑھ کر، مارکس پسند بن گیا۔

پھر تعلیم ختم ہوتے ہوتے، یہ سب کچھ ہوَا ہو گیا، …

ڈان‘‘ اور سیاست دان اور عام لوگ’’

[سیاسی قضیے: [5 جولائی، 2018

ویسے تو انگریزی اخبار، ’’ڈان‘‘ اشتراکیت اور اشتراکیوں کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، جو اپنے مقصد حصول کے لیے طاقت اور تشدد کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں۔ مگر لیاری میں ووٹروں نے پیپلز پارٹی کے ’’کراؤن پرنس‘‘، بلاول بھٹو زرداری کا جس طرح استقبال کیا، ’’ڈان‘‘ کو یہ انداز اچھا نہیں لگا۔ ’’ڈان‘‘ نے اس پر جو اداریہ لکھا، اس کا عنوان ہی معنی خیز ہے: سیاست دانوں کو شرم دلانا [3 جولائی، 2018]۔

اداریہ پڑھ کر اس عنوان کا مطلب یہ بنتا ہے کہ لیاری کے ووٹروں کا سیاست دانوں کو اس انداز میں شرم دلانا درست نہیں۔ ’’ڈان‘‘ کی رائے یہ ہے کہ ووٹروں کو سیاست دانوں کی نااہلی پر اپنا ردِعمل ووٹ کی صورت میں ظاہر کرنا چاہیے۔

ڈان کے مطابق یہ رجحان تکلیف دہ ہے۔ ناخوش ووٹروں نے متعدد انتخابی امیدواروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، اور یوں ممتاز …