انفرادی انقلاب سے اجتماعی و ریاستی انقلاب تک

سیاسی قضیے: 25 اپریل، 2018

اس بات کا احساس و ادراک تو خاصے عرصے سے تھا۔ مگر یہ بات ابھی کچھ برس قبل ایک نظریے کی صورت اختیار کر پائی ہے۔

اس کی پہلی نمایاں مثال جو مجھے یاد آتی ہے، وہ اس وقت سے تعلق رکھتی ہے، جب میں ایم اے کر رہا تھا۔

فلسفے کے ایک فارغ التحصیل صاحب اکثر شعبۂ فلسفہ میں تشریف لایا کرتے تھے۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ آتے اور کچھ اساتذہ اور کچھ طلبہ سے ملتے ملاتے، گپ شپ لگاتے اور چلے جاتے۔

ایک دن سعید اقبال واہلہ نے بتایا کہ وہ مسرور خاں آئے تھے آج۔ ملے تو مجھے کہنے لگے: عبداللہ علیم، میں سول جج بن گیا ہوں۔

واہلے نے کہا: میں عبداللہ علیم نہیں، سعید اقبال ہوں۔

مگر مسرور خاں بولے: تم جو کوئی بھی ہو، میں سول جج بن …