بایاں بازو بھی تحریکِ انصاف کی طرح فسطائی (فاشسٹ) ثابت ہو گا
آج کل یوں معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے بائیں بازو کی سیاست کا احیا ہو رہا ہے۔ منظور پشتین کی گرفتاری پر مختلف شہروں اور خاص طور پر اسلام آباد میں جو احتجاج ہوئے، بائیں بازو کی جماعت، عوامی ورکرز پارٹی، نے اس میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئیں، ان میں ’’پشتون تحفظ موومینٹ‘‘ (پی ٹی ایم) کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے کارکن بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل جب اپریل 2018 میں پی ٹی ایم نے لاہور میں جلسہ کیا۔ اس وقت بھی عوامی ورکرز پارٹی نے اس کی ’’کچھ نہ کچھ‘‘ میزبانی کی تھی۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ عوامی ورکرز پارٹی، جو کہ سوشل ازم (اشتراکیت) کی دعویدار ہے، وہ پی ٹی ایم کے ساتھ کیونکر متحد ہو سکتی ہے۔ سوشل ازم (اشتراکیت) میں تو حقوق کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ پی ٹی مجسم …
دا سنگہ آزادی دہ ـ آزادی یہ کیسی ہے
’’پشتون تحفظ موومینٹ‘‘ کے نام
[لاہور میں جلسے کے موقعے پر]
دا سنگہ آزادی دہ
آزادی یہ کیسی ہے، محفوظ نہیں کوئی
آزادی یہ کیسی ہے، آزاد نہیں کوئی
دا سنگہ آزادی دہ
آزادی یہ کیسی ہے، اپنے ہی بنے آقا
آئین نہیں کوئی، سرکار نہیں کوئی
دا سنگہ آزادی دہ
آزادی یہ کیسی ہے، قانون نہیں کوئی
آزادی یہ کیسی ہے، انصاف نہیں کوئی
دا سنگہ آزادی دہ
آزادی یہ کیسی ہے، شنوائی نہیں کوئی
سننے کو گلہ ہرگز، تیار نہیں کوئی
دا سنگہ آزادی دہ
آزادی یہ کیسی ہے، تذلیل مقدر ہے
ہم بھی ہیں وطن دوست، غدار نہیں کوئی…
اشرافیہ کی سیاست اور ’’پشتون تحفظ موومینٹ‘‘ کی سیاست
سیاسی قضیے: 15اپریل، 2018
اشرافیہ کی سیاست، بخشنے، عطا کرنے، دینے اور دان کرنے سے عبارت ہے۔
جیسے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ۔
یا پھر بلا تعطل بجلی کی فراہمی۔ یا جیسے کہ سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، وغیرہ۔
اور ایسی ہی دوسری چیزیں، جو وقت اور موقعے کی مناسبت سے اشرافی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ بنتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ یہ چیزیں لوگوں کو اپنے پیسے سے مہیا کرتے ہیں۔
اس کا صاف جواب ہے: قطعاً نہیں۔
خواہ یہ روٹی، کپڑا اور مکان ہو، یا بجلی، یا کوئی اور چیز۔ یہ تمام چیزیں لوگوں کو قیمتاً مہیا کی جاتی ہیں۔ اور نجی کاروباروں کی نسبت کہیں زیادہ مہنگی قیمت پر۔ اگر کوئی چیز کبھی ’’مفت‘‘ کہہ کر مہیا کی جاتی ہے، تو اس کی قیمت بھی لوگوں سے ٹیکس کی صورت میں وصول کی جا رہی ہوتی ہے۔…
اگر ملک کے معاملات آئین کے مطابق نہیں چلا سکتے، تو آئین کو تحلیل کر دیں
سیاسی قضیے: اتوار 11 مارچ، 2018
ایک جانور بھی کسی جگہ رہتا ہے تو اسے اس جگہ سے کچھ نہ کچھ لگاؤ ہو جاتا ہے۔ مگر یہ پاکستان کیسا ملک ہے، اس کے اشرافی طبقات کو ستر برس بعد بھی اس ملک، اس کی زمین، اس کے لوگوں سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ ملک کی سیاست اور معیشت پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مالِ غنیمت کو لوٹنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اور یہی وہ سبب ہے کہ ہر ادارہ سیاسی ریشہ دوانیوں سے گہنایا ہوا ہے۔
زیادہ دور نہیں جاتے۔ صرف گذشتہ دو حکومتوں کو پیشِ نظر رکھ لیں، یعنی پیپلز پارٹی اور حالیہ مسلم لیگ ن کی حکومت۔ ابھی اس قضیے کو رہنے دیتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا اور ان کی کارکردگی کیسی رہی۔ ابھی صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ کیا جاتا رہا۔ غالباً انھیں ایک …
The 21st point: Overhaul the state
Presently there is happening quite a serious debate on the 20 points envisaged in the National Action Plan. Its thrust is on two points:
i) All these measures should have been in their place since long as a matter of routine, probably from the day first when Pakistan came to exist; and,
ii) Due to the past negligence of the governments, doubts and questions are being raised about the efficacy of these measures.
The argument the present writer aims to make is a bit different; he wants to propose a 21st point to be added to the NAP, which focuses on overhauling the state. Let’s be precise in judging: It’s the state that played havoc with the society of Pakistan, and now