What should we (the civil society) be doing in India and Pakistan? A conversation between an Indian and a Pakistani

Jayant Bhandari is an Indian who left India and settled in Canada. I never met him. He’s a Facebook friend. His posts generate thoughtful discussions and that’s how we both found each other in a good friendly relation.

I did try to leave Pakistan during my teen years, and failed. Later I abandoned the idea of leaving the country for obvious “reasons.” I wanted to do my bit to free our people from the pseudo shackles made of unfounded notions by the Riyasati Ashrafiya (ریاستی اشرافیہ) of Pakistan.

What is common between Jayant and I is the deep concern for the freedom, well-being and happiness of our respective people. And no doubt for the larger humanity too.

Early this January one post of Jayant attracted my attention. It was an excerpt from one of his articles: First World, Third World.

“Irrespective of the merit of what Trump did, those who …

انتخابات کا بائیکاٹ اور آئین کی بالادستی

سیاسی قضیے:3  جون، 2018

جولائی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ اس لیے ضروری ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت میں آ جائے، عام لوگوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

وہ اسی طرح دولت کماتے اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ریاست اور حکومت کے اللوں تللوں کے لیے دیتے رہیں گے۔ انھیں اپنی جان و مال، حقوق اور آزادیوں کا تحفظ اور انصاف میسر نہیں آئے گا۔

یعنی جب تک ملک میں آئین کی بالادستی قائم نہیں ہو گی، یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اور جب آئین کی بالادستی قائم ہی نہیں ہونی، تو پھر انتخابات میں ووٹ دینے سے کیا فائدہ۔

پہلے مضمون، ’’کیا انتخابات کا بائیکاٹ موثر ثابت ہو سکتا ہے؟‘‘ میں اسی استدلال کی بنیاد پر انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔

یہاں موجودہ پوسٹ میں، اسی استدلال کو مزید وضاحت سے پیش کیا جائے …

کیا انتخابات کا بائیکاٹ موثر ہو سکتا ہے؟

سیاسی قضیے: ہفتہ 25 مئی، 2018

دو چیزوں سے توجہ ہٹانا، نہایت مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ بلکہ، میرے خیال میں، مہلک ثابت ہو گا۔

پہلی چیز، آئین کی بالادستی ہے، اور دوسری چیز، یہ سوال کہ انتخابات موثر ثابت ہوتے ہیں یا نہیں۔

ماضی میں، جب جب آئین موجود تھا، آئین کی بالادستی ایک خواب ہی رہی۔ اور ایسے میں جو انتخابات منعقد ہوئے، وہ آئین کی بالادستی کے قیام کے ضمن میں قطعی غیر موثر ثابت ہوئے۔

گذشتہ کئی ایک انتخابات میں، میں نے ووٹ ڈالا، اگرچہ کوئی بہت بڑی امیدوں کے ساتھ نہیں۔ صرف ان انتخابت میں ووٹ نہیں ڈال سکا، جب ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے مجھے انتخابات کروانے کے ضمن میں فریضہ سونپا گیا۔

مگر اب جو انتخابات ہونے والے ہیں، ان سے میں بالکل مایوس ہوں۔ بلکہ کوئی سال بھر سے میں اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے ایک سوال پوچھتا رہا ہوں: …

انتخابات یا لاٹری

سیاسی قضیے: 3 مئی، 2018

کتنے برس کبھی اِس سیاسی جماعت، کبھی اُس سیاسی جماعت کے ساتھ لگے رہنے کے بعد، اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ یہاں ہونے والے انتخابات تو لاٹری کی طرح ہیں۔

یہ بات ایک علاحدہ معاملہ ہے کہ کونسے انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے یا نہیں تھے۔

پہلے پہل میں پیپلز پارٹی کا حامی رہا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا فسطائی چہرہ سامنے آنے پر یہ ساتھ ختم ہو گیا۔ اور 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلی اور فسطائی ہتھکنڈوں کے استعمال کے بعد پی این اے (پاکستان نیشنل الائینس) کی احتجاجی تحریک کا ساتھ دیا۔

بیچ میں خاصے عرصے تک کوئی سیاسی وابستگی نہیں رہی۔  بلکہ اصل وابستگی بائیں بازو کے فلسفے کے ساتھ تھی۔

مگر پیپلز پارٹی کی مخالفت سر پر سوار تھی۔ دھوکہ بہت بڑا تھا، جسے میں عام لوگوں کے ساتھ …

ووٹ کو عزت دو ۔ ۔ ۔ یا ووٹر کو عزت دو

سیاسی قضیے:  19اپریل، 2018

فرض کیجیے نواز شریف آج وزیرِ اعظم ہوتے، تو اس سے عام شہری کو بھلا کیا فرق پڑ جاتا۔

اور کیا اس صورت میں مسلم لیگ ن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ زبان پر لاتی۔ قطعاً نہیں۔ سب کچھ حسبِ معمول چل رہا ہوتا اور راوی چین ہی چین لکھتا۔

کیونکہ نواز شریف اب وزیرِ اعظم نہیں، لہٰذا، یہ بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ اس سے صاف مراد یہ ہے کہ جسے ووٹ ملیں، اسے حکومت کرنے دو۔ وہ جیسے چاہے، اسے ویسے حکومت کرنے دو۔

سوال یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں اتنی حکومتیں بنیں بگڑیں، مگر کیا کسی حکومت نے ’’ووٹر کو عزت دو‘‘ کی طرف توجہ دی۔

کسی نے بھی نہیں۔

یہ تو اب چونکہ خود نواز شریف پر افتاد آن پڑی ہے، سو انھیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا معاملہ یاد آ گیا ہے۔

ویسے …