دانشور اشرافیہ اور فکرودانش کا بحران

آپ سوچنے سمجھنے والے فرد ہیں۔ تصورات و نظریات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ درپیش معاملات و مسائل کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اپنے خیالات کو مجتمع کرتے ہیں، اور یہ چیز ایک مضمون کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

اب آپ کیا کریں گے۔ یہی کہ یہ مضمون کہیں شائع ہو تاکہ پڑھا جائے، زیرِبحث آئے۔ اور یوں آپ کے خیالات پرکھ و جانچ کے عمل سے گزریں۔ اور اگر درست اور موثر ہیں تو ان کی پذیرائی ہو۔ اور یوں ممکنہ طور پر یہ کسی تبدیلی کا سبب بن سکیں۔

مگر پاکستان میں ایسا ہونے کے امکانات قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آپ نے مضمون قلمبند کر لیا۔ اب یہ مرحلہ درپیش ہو گا کہ یہ شائع کیسے ہو۔

پہلا کام تو یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اسے بطور خط یا بطور ایمیل کسی اخبار کو بھیج دیں۔ مگر یوں اس کے شائع ہونے کا غالباّ کوئی …

غیرسرکاری سینسرشپ

کوئی دو ماہ قبل مجھے ’’نیا دور‘‘ (www.NayaDaur.tv) سے لکھنے کی دعوت موصول ہوئی۔ یہ خوشی کی بات تھی۔ میں نے انھیں کہا کہ میں فری لانس مصنف و محقق ہوں، کیا آپ ادائیگی کریں گے۔ انھوں نے کہا ابھی تو ابتدا ہے، آگے چل کر ضرور کریں گے۔

میں نے لکھنا شروع کر دیا، اس درخواست کے ساتھ کہ کچھ بھی تبدیل کرنا ہو یا نکالنا ہو تو مجھے بتائیے۔ پانچ چھ مضامین شائع ہوئے۔ انھی دنوں لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکیلوں کا دھاوا ہو گیا۔ میں نے ایک مضمون بھیجا، جس کا عنوان ’’پی آئی سی دھاوا: مقدمات آئی جی اور وزیر اعلیٰ پر بھی درج ہونے چاہییں‘‘ تھا۔ جب شائع ہوا تو عنوان بدل گیا تھا: ’’پی آئی سی دھاوا: مقدمات آئی جی اور وزیر اعلیٰ پر درج ہونے چاہییں‘‘ میں نے عرض کی کہ یوں تو سارے کا سارا استدلال قتل ہو …

آئین کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہو گیا تھا، پھر تردد کیسا

نوٹ: یہ تحریر https://nayadaur.tv پر شائع نہیں ہو سکی۔

ابھی جب خصوصی عدالت نے جینرل مشرف کے خلاف ’’سنگین غداری‘‘ کے مقدمے میں فیصلہ سنایا، تو اس پر آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج میں غم و غصے کے ردِ عمل کا اظہار نہ صرف غیرآئینی اور خلافِ آئین تھا، بلکہ یہ انتہائی غیرضروری اور غیراخلاقی بھی تھا۔

بات سیدھی سی ہے کہ موجودہ طور پر 1973 کا آئین نافذالعمل ہے۔ یہ یہی آئین ہے، جو پاکستان کی ریاست کو وجود میں لایا ہے۔ اسی آئین نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کو وجود دیا ہے۔ اسی آئین نے دوسرے تمام آئینی اداروں کو وجود بخشا ہے۔ ’’فوج‘‘ کا وجود بھی اسی آئین کا مرہونِ منت ہے۔ آئین نہ ہو، نہ تو اس ریاست کا وجود قائم رہے گا، نہ ہی دوسرے اداروں کا، اور نہ ہی فوج کا۔

لہٰذا، آئین جس جرم کو ’’سنگین جرم‘‘ قرار دیتا ہے، اگر …

ڈان‘‘ اور سیاست دان اور عام لوگ’’

[سیاسی قضیے: [5 جولائی، 2018

ویسے تو انگریزی اخبار، ’’ڈان‘‘ اشتراکیت اور اشتراکیوں کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، جو اپنے مقصد حصول کے لیے طاقت اور تشدد کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں۔ مگر لیاری میں ووٹروں نے پیپلز پارٹی کے ’’کراؤن پرنس‘‘، بلاول بھٹو زرداری کا جس طرح استقبال کیا، ’’ڈان‘‘ کو یہ انداز اچھا نہیں لگا۔ ’’ڈان‘‘ نے اس پر جو اداریہ لکھا، اس کا عنوان ہی معنی خیز ہے: سیاست دانوں کو شرم دلانا [3 جولائی، 2018]۔

اداریہ پڑھ کر اس عنوان کا مطلب یہ بنتا ہے کہ لیاری کے ووٹروں کا سیاست دانوں کو اس انداز میں شرم دلانا درست نہیں۔ ’’ڈان‘‘ کی رائے یہ ہے کہ ووٹروں کو سیاست دانوں کی نااہلی پر اپنا ردِعمل ووٹ کی صورت میں ظاہر کرنا چاہیے۔

ڈان کے مطابق یہ رجحان تکلیف دہ ہے۔ ناخوش ووٹروں نے متعدد انتخابی امیدواروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، اور یوں ممتاز …

So, is London the last refuge for the Kleptocrats-Criminals?

The country that taught us lesson regarding Rule of Law, Rule of Politics is winning there!

On September 16, 2016, Dawn published the following Situationer, which explains how law may not win over politics in UK:

Politics, not law, likely to decide murder probe
By Owen Bennett-Jones

Here is the text of the piece:

LONDON: Shortly before 17:30 on Sept 16, 2010, Dr Imran Farooq was on his way home from work when he was murdered outside his home in Green Lane, Edgware, in north London. As the police subsequently reported, a post-mortem gave his cause of death as multiple stab wounds and blunt trauma to the head.

For Dr Farooq it was a violent, brutal end. For the MQM, it was the start of a process that six years later would leave the party divided, weakened and under assault from the Pakistani state. We can never know what would