نقصان برائے نقصان
ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے اپنے فائدے کے لیے۔ چلیں اس نے خود کوئی فائدہ تو اٹھایا۔
مگر ایک اور چیز ہوتی ہے کہ کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے، مگر خود اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نقصان کیوں پہنچایا؟
یہی چیز ہے جو اب تک مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ مگر اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، تو اس میں ہونے والی بہت سی چیزوں میں نقصان پہنچانے والے کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ وہ پاکستان کو بس نقصان پہنچانے کی خاطر نقصان پہنچا رہا ہے۔
اور پاکستان سے میری مراد پاکستان کے شہری ہیں۔ خاص طور پر عام شہری۔ نقصان انھیں پہنچ رہا ہے۔
اور یہ نقصان باہر سے نہیں، پاکستان کے اندر سے پہنچایا جا رہا ہے۔ اور نقصان پہنچانے والے وہ …
نظریۂ ضرورت یا آئین کی بالادستی
Addendum to the conversation: What should we (the civil society) be doing in India and Pakistan
Here is the link to the original conversation:
https://pakpoliticaleconomy.com/?p=1774
As Jayant Bhandari and I conversed, a few others joined. Since they commented publicly, below are copied, though anonymously, what did they add.
Anonymous 1: “state fulfilling its constitutional role/responsibilities”, “Form a political party to work as an institution”. ??? How much longer can grown-ups believe in these fairy tales of a benevolent state controlled by a political process – when the reality, right before their eyes, is so different, and not in a good way?
Khalil Ahmad: I fear you miss the context of the discussion. The context is Pakistan and India, especially.
Anonymous 1: Pakistan and India – even more so. Transpose the western idea (a fairy tale, really) of a enlightened benevolent state responsive to political process inputs, and viola! – we have two examples of prosperity and peace – India and Pakistan
KA: First I didn’t talk …
What should we (the civil society) be doing in India and Pakistan? A conversation between an Indian and a Pakistani
Jayant Bhandari is an Indian who left India and settled in Canada. I never met him. He’s a Facebook friend. His posts generate thoughtful discussions and that’s how we both found each other in a good friendly relation.
I did try to leave Pakistan during my teen years, and failed. Later I abandoned the idea of leaving the country for obvious “reasons.” I wanted to do my bit to free our people from the pseudo shackles made of unfounded notions by the Riyasati Ashrafiya (ریاستی اشرافیہ) of Pakistan.
What is common between Jayant and I is the deep concern for the freedom, well-being and happiness of our respective people. And no doubt for the larger humanity too.
Early this January one post of Jayant attracted my attention. It was an excerpt from one of his articles: First World, Third World.
“Irrespective of the merit of what Trump did, those who …
آئین کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہو گیا تھا، پھر تردد کیسا
نوٹ: یہ تحریر https://nayadaur.tv پر شائع نہیں ہو سکی۔
ابھی جب خصوصی عدالت نے جینرل مشرف کے خلاف ’’سنگین غداری‘‘ کے مقدمے میں فیصلہ سنایا، تو اس پر آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج میں غم و غصے کے ردِ عمل کا اظہار نہ صرف غیرآئینی اور خلافِ آئین تھا، بلکہ یہ انتہائی غیرضروری اور غیراخلاقی بھی تھا۔
بات سیدھی سی ہے کہ موجودہ طور پر 1973 کا آئین نافذالعمل ہے۔ یہ یہی آئین ہے، جو پاکستان کی ریاست کو وجود میں لایا ہے۔ اسی آئین نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کو وجود دیا ہے۔ اسی آئین نے دوسرے تمام آئینی اداروں کو وجود بخشا ہے۔ ’’فوج‘‘ کا وجود بھی اسی آئین کا مرہونِ منت ہے۔ آئین نہ ہو، نہ تو اس ریاست کا وجود قائم رہے گا، نہ ہی دوسرے اداروں کا، اور نہ ہی فوج کا۔
لہٰذا، آئین جس جرم کو ’’سنگین جرم‘‘ قرار دیتا ہے، اگر …
ریاست کو نئے سرے سے آئین کے مطابق ڈھالنا ہو گا
نوٹ: یہ تحریر 13 دسمبر 2019 کو ’’نیا دور‘‘ پر شائع ہوئی۔
https://urdu.nayadaur.tv/26108/
لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلا کا دھاوا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔
تو پھر خرابی کہاں ہے؟
سوال تو یہ ہے کہ خرابی کہاں نہیں؟
بس ایک آئین ہے، جس سے امید باندھی جا سکتی ہے۔ مگر آئین تو محض ایک اخلاقی دستاویز ہے۔ اس پر عمل تو ہوتا نہیں۔
طاقت ور گروہ اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ ریاستی اشرافیہ، اور اس کے مختلف طبقات، جیسے کہ سیاسی اشرافیہ، فوجی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ، وغیرہ، اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ اشرافیہ کے طبقات نے ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ آئین اور قانون کو اپنی ضرورت اور فائدے کے مطابق ڈھالتے اور توڑمروڑ لیتے ہیں۔
یعنی جیسا کہ عیاں ہے کہ ریاست لوگوں کے لیے ہوتی ہے، لوگ ریاست کے لیے نہیں۔ مگر …
ریاستی اشرافیہ اور آئین و قانون کی حکمرانی
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:
https://www.facebook.com/StateAristocracy/
…
انتخابات کا بائیکاٹ اور آئین کی بالادستی
سیاسی قضیے:3 جون، 2018
جولائی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ اس لیے ضروری ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت میں آ جائے، عام لوگوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وہ اسی طرح دولت کماتے اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ریاست اور حکومت کے اللوں تللوں کے لیے دیتے رہیں گے۔ انھیں اپنی جان و مال، حقوق اور آزادیوں کا تحفظ اور انصاف میسر نہیں آئے گا۔
یعنی جب تک ملک میں آئین کی بالادستی قائم نہیں ہو گی، یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اور جب آئین کی بالادستی قائم ہی نہیں ہونی، تو پھر انتخابات میں ووٹ دینے سے کیا فائدہ۔
پہلے مضمون، ’’کیا انتخابات کا بائیکاٹ موثر ثابت ہو سکتا ہے؟‘‘ میں اسی استدلال کی بنیاد پر انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔
یہاں موجودہ پوسٹ میں، اسی استدلال کو مزید وضاحت سے پیش کیا جائے …
کیا انتخابات کا بائیکاٹ موثر ہو سکتا ہے؟
سیاسی قضیے: ہفتہ 25 مئی، 2018
دو چیزوں سے توجہ ہٹانا، نہایت مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ بلکہ، میرے خیال میں، مہلک ثابت ہو گا۔
پہلی چیز، آئین کی بالادستی ہے، اور دوسری چیز، یہ سوال کہ انتخابات موثر ثابت ہوتے ہیں یا نہیں۔
ماضی میں، جب جب آئین موجود تھا، آئین کی بالادستی ایک خواب ہی رہی۔ اور ایسے میں جو انتخابات منعقد ہوئے، وہ آئین کی بالادستی کے قیام کے ضمن میں قطعی غیر موثر ثابت ہوئے۔
گذشتہ کئی ایک انتخابات میں، میں نے ووٹ ڈالا، اگرچہ کوئی بہت بڑی امیدوں کے ساتھ نہیں۔ صرف ان انتخابت میں ووٹ نہیں ڈال سکا، جب ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے مجھے انتخابات کروانے کے ضمن میں فریضہ سونپا گیا۔
مگر اب جو انتخابات ہونے والے ہیں، ان سے میں بالکل مایوس ہوں۔ بلکہ کوئی سال بھر سے میں اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے ایک سوال پوچھتا رہا ہوں: …
سیاست اور میثاقِ وفاداری
سیاسی قضیے: 21 مئی،2018
کوئی بھی ہوش مند اور ذی عقل شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ ایک ہی کشتی میں سوار افراد کی شکست و فتح جدا جدا ہو گی۔ کیونکہ اگر کشتی ڈوبتی ہے، تو غالب امکان یہی ہے کہ کشتی میں سوار ہر فرد ڈوب جائے گا۔
مگر سیاست دان ایک ایسی مخلوق ہو سکتے ہیں، جو ایسا سوچ بھی سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے نشئی (’’جہاز‘‘) ہیں، جو اپنے نشے کی خاطر اپنے ساتھی نشئی کو بھی قتل کر دیتے ہیں!
سیاست دان کسی بھی ملک کے ہوں، ان میں سے بیشتر ایسا ہی سوچتے اور ایسا ہی کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارا پالا پاکستانی سیاست دانوں سے ہے، لہٰذا، یہاں انھی کا رونا رویا جائے گا۔
کسی ملک کی سیاسی حدود، اس کی تشکیل کرتی ہیں۔ بلکہ اصل میں یہ آئین ہوتا ہے، جن میں ان …
انتخابات یا لاٹری
سیاسی قضیے: 3 مئی، 2018
کتنے برس کبھی اِس سیاسی جماعت، کبھی اُس سیاسی جماعت کے ساتھ لگے رہنے کے بعد، اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ یہاں ہونے والے انتخابات تو لاٹری کی طرح ہیں۔
یہ بات ایک علاحدہ معاملہ ہے کہ کونسے انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے یا نہیں تھے۔
پہلے پہل میں پیپلز پارٹی کا حامی رہا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا فسطائی چہرہ سامنے آنے پر یہ ساتھ ختم ہو گیا۔ اور 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلی اور فسطائی ہتھکنڈوں کے استعمال کے بعد پی این اے (پاکستان نیشنل الائینس) کی احتجاجی تحریک کا ساتھ دیا۔
بیچ میں خاصے عرصے تک کوئی سیاسی وابستگی نہیں رہی۔ بلکہ اصل وابستگی بائیں بازو کے فلسفے کے ساتھ تھی۔
مگر پیپلز پارٹی کی مخالفت سر پر سوار تھی۔ دھوکہ بہت بڑا تھا، جسے میں عام لوگوں کے ساتھ …
ووٹ کو عزت دو ۔ ۔ ۔ یا ووٹر کو عزت دو
سیاسی قضیے: 19اپریل، 2018
فرض کیجیے نواز شریف آج وزیرِ اعظم ہوتے، تو اس سے عام شہری کو بھلا کیا فرق پڑ جاتا۔
اور کیا اس صورت میں مسلم لیگ ن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ زبان پر لاتی۔ قطعاً نہیں۔ سب کچھ حسبِ معمول چل رہا ہوتا اور راوی چین ہی چین لکھتا۔
کیونکہ نواز شریف اب وزیرِ اعظم نہیں، لہٰذا، یہ بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ اس سے صاف مراد یہ ہے کہ جسے ووٹ ملیں، اسے حکومت کرنے دو۔ وہ جیسے چاہے، اسے ویسے حکومت کرنے دو۔
سوال یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں اتنی حکومتیں بنیں بگڑیں، مگر کیا کسی حکومت نے ’’ووٹر کو عزت دو‘‘ کی طرف توجہ دی۔
کسی نے بھی نہیں۔
یہ تو اب چونکہ خود نواز شریف پر افتاد آن پڑی ہے، سو انھیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا معاملہ یاد آ گیا ہے۔
ویسے …
اگر ملک کے معاملات آئین کے مطابق نہیں چلا سکتے، تو آئین کو تحلیل کر دیں
سیاسی قضیے: اتوار 11 مارچ، 2018
ایک جانور بھی کسی جگہ رہتا ہے تو اسے اس جگہ سے کچھ نہ کچھ لگاؤ ہو جاتا ہے۔ مگر یہ پاکستان کیسا ملک ہے، اس کے اشرافی طبقات کو ستر برس بعد بھی اس ملک، اس کی زمین، اس کے لوگوں سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ ملک کی سیاست اور معیشت پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مالِ غنیمت کو لوٹنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اور یہی وہ سبب ہے کہ ہر ادارہ سیاسی ریشہ دوانیوں سے گہنایا ہوا ہے۔
زیادہ دور نہیں جاتے۔ صرف گذشتہ دو حکومتوں کو پیشِ نظر رکھ لیں، یعنی پیپلز پارٹی اور حالیہ مسلم لیگ ن کی حکومت۔ ابھی اس قضیے کو رہنے دیتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا اور ان کی کارکردگی کیسی رہی۔ ابھی صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ کیا جاتا رہا۔ غالباً انھیں ایک …
سیاست کے سینے میں آئین کیوں نہیں دھڑکتا؟
سیاسی قضیے: منگل 6 مارچ، 2018
چند برس قبل، میں نے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کی مختلف دستاویزات دوبارہ دیکھنی شروع کیں، جن میں ان کی طرف سے شائع ہونے والے تجزیات، رپورٹیں، سالانہ جائزے، وغیرہ، شامل تھے۔ یہ چیزیں میرے پاس پہلے سے دستیاب تھیں، کیونکہ میں خود بائیں بازو سے وابستہ رہا تھا۔
ان دستاویزات کے مطالعے کے دوران، جس چیز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ’’آئین‘‘ کے ذکر کا مفقود ہونا تھا۔ ان میں قریب قریب تمام دستاویزات 1973 کے بعد سے تعلق رکھتی تھیں، مگر ان کے پس منظر میں ’’آئین‘‘ کہیں موجود نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، پاکستان سوشلسٹ پارٹی، یا مزدور کسان پارٹی کی دستاویزات۔
کیا یہ حیران کن امر نہیں!
سوال یہ ہے کہ کیا آئین کو سامنے رکھے بغیر، کوئی سیاسی گفتگو بامعنی ہو سکتی ہے، خواہ آئین کو تبدیل کرنے کی بات ہی کیوں نہ ہو …
Article 184 – interpreting it paradoxically
As far as the interpretation of the article 184 is concerned, common-sense understanding is altogether different. It has three clauses that form the whole of this article. Its title is: The Original Jurisdiction of Supreme Court.
The first clause states: (1) The Supreme Court shall, to the exclusion of every other court, have original jurisdiction in any dispute between any two or more governments.
The second clause states: (2) In the exercise of the jurisdiction conferred on it by clause (1), the Supreme Court shall pronounce declaratory judgments only.
The third and the last clause states: (3) Without prejudice to Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter 1 of Part II is involved, have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article.…