نقصان برائے نقصان

ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے اپنے فائدے کے لیے۔ چلیں اس نے خود کوئی فائدہ تو اٹھایا۔
مگر ایک اور چیز ہوتی ہے کہ کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے، مگر خود اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

Harming Pakistan for the sake of harm

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نقصان کیوں پہنچایا؟
یہی چیز ہے جو اب تک مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ مگر اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، تو اس میں ہونے والی بہت سی چیزوں میں نقصان پہنچانے والے کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ وہ پاکستان کو بس نقصان پہنچانے کی خاطر نقصان پہنچا رہا ہے۔
اور پاکستان سے میری مراد پاکستان کے شہری ہیں۔ خاص طور پر عام شہری۔ نقصان انھیں پہنچ رہا ہے۔
اور یہ نقصان باہر سے نہیں، پاکستان کے اندر سے پہنچایا جا رہا ہے۔ اور نقصان پہنچانے والے وہ …

نظریۂ ضرورت یا آئین کی بالادستی

کچھ نظریات ایسے بھی ہیں، جن کا زور اس بات پر ہے کہ عمران خان کی حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔
Doctrine of Necessity or Constitutionalism
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یوں لوگوں کا تبدیلی کا شوق پورا ہو جائے۔
ایک اور دلیل یہ ہے، اور یہ سادہ لوح لوگوں کی طرف سے ہے، کہ حکومت کے لیے مدت پوری کرنا ضروری ہے، اور آئین کا تقاضا بھی ہے۔
یعنی حامی اور مخالف دونوں جانب سے مختلف طرح کی دلیلیں موجود ہیں، اس نظریے کے حق میں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کسی غیرآئینی حکومت کو کیوں قبول کیا جائے، مدت پوری کرنے کی بات تو علاحدہ رہی۔
جو لوگ پاکستان کی عدلیہ کو نظریۂ ضرورت کا طعنہ دیتےہیں، تو کیا یہ لوگ خود نظریۂ ضرورت کے حامی نہیں بنے ہوئے۔ یعنی وہ بھی نہ صرف ایک غیرآئینی حکومت کو قبول کر رہے ہیں، بلکہ چاہتے ہیں کہ یہ مدت

Addendum to the conversation: What should we (the civil society) be doing in India and Pakistan

Here is the link to the original conversation:

https://pakpoliticaleconomy.com/?p=1774

As Jayant Bhandari and I conversed, a few others joined. Since they commented publicly, below are copied, though anonymously, what did they add.

Anonymous 1: “state fulfilling its constitutional role/responsibilities”, “Form a political party to work as an institution”. ??? How much longer can grown-ups believe in these fairy tales of a benevolent state controlled by a political process – when the reality, right before their eyes, is so different, and not in a good way?

Khalil Ahmad: I fear you miss the context of the discussion. The context is Pakistan and India, especially.

Anonymous 1: Pakistan and India – even more so. Transpose the western idea (a fairy tale, really) of a enlightened benevolent state responsive to political process inputs, and viola! – we have two examples of prosperity and peace – India and Pakistan

KA: First I didn’t talk …

What should we (the civil society) be doing in India and Pakistan? A conversation between an Indian and a Pakistani

Jayant Bhandari is an Indian who left India and settled in Canada. I never met him. He’s a Facebook friend. His posts generate thoughtful discussions and that’s how we both found each other in a good friendly relation.

I did try to leave Pakistan during my teen years, and failed. Later I abandoned the idea of leaving the country for obvious “reasons.” I wanted to do my bit to free our people from the pseudo shackles made of unfounded notions by the Riyasati Ashrafiya (ریاستی اشرافیہ) of Pakistan.

What is common between Jayant and I is the deep concern for the freedom, well-being and happiness of our respective people. And no doubt for the larger humanity too.

Early this January one post of Jayant attracted my attention. It was an excerpt from one of his articles: First World, Third World.

“Irrespective of the merit of what Trump did, those who …

آئین کا نفاذ 14 اگست 1973 کو ہو گیا تھا، پھر تردد کیسا

نوٹ: یہ تحریر https://nayadaur.tv پر شائع نہیں ہو سکی۔

ابھی جب خصوصی عدالت نے جینرل مشرف کے خلاف ’’سنگین غداری‘‘ کے مقدمے میں فیصلہ سنایا، تو اس پر آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج میں غم و غصے کے ردِ عمل کا اظہار نہ صرف غیرآئینی اور خلافِ آئین تھا، بلکہ یہ انتہائی غیرضروری اور غیراخلاقی بھی تھا۔

بات سیدھی سی ہے کہ موجودہ طور پر 1973 کا آئین نافذالعمل ہے۔ یہ یہی آئین ہے، جو پاکستان کی ریاست کو وجود میں لایا ہے۔ اسی آئین نے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ کو وجود دیا ہے۔ اسی آئین نے دوسرے تمام آئینی اداروں کو وجود بخشا ہے۔ ’’فوج‘‘ کا وجود بھی اسی آئین کا مرہونِ منت ہے۔ آئین نہ ہو، نہ تو اس ریاست کا وجود قائم رہے گا، نہ ہی دوسرے اداروں کا، اور نہ ہی فوج کا۔

لہٰذا، آئین جس جرم کو ’’سنگین جرم‘‘ قرار دیتا ہے، اگر …

ریاست کو نئے سرے سے آئین کے مطابق ڈھالنا ہو گا

نوٹ: یہ تحریر 13 دسمبر 2019 کو ’’نیا دور‘‘ پر شائع ہوئی۔

https://urdu.nayadaur.tv/26108/

لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلا کا دھاوا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔

تو پھر خرابی کہاں ہے؟

سوال تو یہ ہے کہ خرابی کہاں نہیں؟

بس ایک آئین ہے، جس سے امید باندھی جا سکتی ہے۔ مگر آئین تو محض ایک اخلاقی دستاویز ہے۔ اس پر عمل تو ہوتا نہیں۔

طاقت ور گروہ اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ ریاستی اشرافیہ، اور اس کے مختلف طبقات، جیسے کہ سیاسی اشرافیہ، فوجی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ، وغیرہ، اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ اشرافیہ کے طبقات نے ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ آئین اور قانون کو اپنی ضرورت اور فائدے کے مطابق ڈھالتے اور توڑمروڑ لیتے ہیں۔

یعنی جیسا کہ عیاں ہے کہ ریاست لوگوں کے لیے ہوتی ہے، لوگ ریاست کے لیے نہیں۔ مگر …

انتخابات کا بائیکاٹ اور آئین کی بالادستی

سیاسی قضیے:3  جون، 2018

جولائی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ اس لیے ضروری ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت میں آ جائے، عام لوگوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

وہ اسی طرح دولت کماتے اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ریاست اور حکومت کے اللوں تللوں کے لیے دیتے رہیں گے۔ انھیں اپنی جان و مال، حقوق اور آزادیوں کا تحفظ اور انصاف میسر نہیں آئے گا۔

یعنی جب تک ملک میں آئین کی بالادستی قائم نہیں ہو گی، یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اور جب آئین کی بالادستی قائم ہی نہیں ہونی، تو پھر انتخابات میں ووٹ دینے سے کیا فائدہ۔

پہلے مضمون، ’’کیا انتخابات کا بائیکاٹ موثر ثابت ہو سکتا ہے؟‘‘ میں اسی استدلال کی بنیاد پر انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی۔

یہاں موجودہ پوسٹ میں، اسی استدلال کو مزید وضاحت سے پیش کیا جائے …

کیا انتخابات کا بائیکاٹ موثر ہو سکتا ہے؟

سیاسی قضیے: ہفتہ 25 مئی، 2018

دو چیزوں سے توجہ ہٹانا، نہایت مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ بلکہ، میرے خیال میں، مہلک ثابت ہو گا۔

پہلی چیز، آئین کی بالادستی ہے، اور دوسری چیز، یہ سوال کہ انتخابات موثر ثابت ہوتے ہیں یا نہیں۔

ماضی میں، جب جب آئین موجود تھا، آئین کی بالادستی ایک خواب ہی رہی۔ اور ایسے میں جو انتخابات منعقد ہوئے، وہ آئین کی بالادستی کے قیام کے ضمن میں قطعی غیر موثر ثابت ہوئے۔

گذشتہ کئی ایک انتخابات میں، میں نے ووٹ ڈالا، اگرچہ کوئی بہت بڑی امیدوں کے ساتھ نہیں۔ صرف ان انتخابت میں ووٹ نہیں ڈال سکا، جب ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے مجھے انتخابات کروانے کے ضمن میں فریضہ سونپا گیا۔

مگر اب جو انتخابات ہونے والے ہیں، ان سے میں بالکل مایوس ہوں۔ بلکہ کوئی سال بھر سے میں اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے ایک سوال پوچھتا رہا ہوں: …

سیاست اور میثاقِ وفاداری

سیاسی قضیے: 21 مئی،2018

کوئی بھی ہوش مند اور ذی عقل شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ ایک ہی کشتی میں سوار افراد کی شکست و فتح جدا جدا ہو گی۔ کیونکہ اگر کشتی ڈوبتی ہے، تو غالب امکان یہی ہے کہ کشتی میں سوار ہر فرد ڈوب جائے گا۔

مگر سیاست دان ایک ایسی مخلوق ہو سکتے ہیں، جو ایسا سوچ بھی سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے نشئی (’’جہاز‘‘) ہیں، جو اپنے نشے کی خاطر اپنے ساتھی نشئی کو بھی قتل کر دیتے ہیں!

سیاست دان کسی بھی ملک کے ہوں، ان میں سے بیشتر ایسا ہی سوچتے اور ایسا ہی کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارا پالا پاکستانی سیاست دانوں سے ہے، لہٰذا، یہاں انھی کا رونا رویا جائے گا۔

کسی ملک کی سیاسی حدود، اس کی تشکیل کرتی ہیں۔ بلکہ اصل میں یہ آئین ہوتا ہے، جن میں ان …

انتخابات یا لاٹری

سیاسی قضیے: 3 مئی، 2018

کتنے برس کبھی اِس سیاسی جماعت، کبھی اُس سیاسی جماعت کے ساتھ لگے رہنے کے بعد، اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ یہاں ہونے والے انتخابات تو لاٹری کی طرح ہیں۔

یہ بات ایک علاحدہ معاملہ ہے کہ کونسے انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے یا نہیں تھے۔

پہلے پہل میں پیپلز پارٹی کا حامی رہا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا فسطائی چہرہ سامنے آنے پر یہ ساتھ ختم ہو گیا۔ اور 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلی اور فسطائی ہتھکنڈوں کے استعمال کے بعد پی این اے (پاکستان نیشنل الائینس) کی احتجاجی تحریک کا ساتھ دیا۔

بیچ میں خاصے عرصے تک کوئی سیاسی وابستگی نہیں رہی۔  بلکہ اصل وابستگی بائیں بازو کے فلسفے کے ساتھ تھی۔

مگر پیپلز پارٹی کی مخالفت سر پر سوار تھی۔ دھوکہ بہت بڑا تھا، جسے میں عام لوگوں کے ساتھ …

ووٹ کو عزت دو ۔ ۔ ۔ یا ووٹر کو عزت دو

سیاسی قضیے:  19اپریل، 2018

فرض کیجیے نواز شریف آج وزیرِ اعظم ہوتے، تو اس سے عام شہری کو بھلا کیا فرق پڑ جاتا۔

اور کیا اس صورت میں مسلم لیگ ن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ زبان پر لاتی۔ قطعاً نہیں۔ سب کچھ حسبِ معمول چل رہا ہوتا اور راوی چین ہی چین لکھتا۔

کیونکہ نواز شریف اب وزیرِ اعظم نہیں، لہٰذا، یہ بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ اس سے صاف مراد یہ ہے کہ جسے ووٹ ملیں، اسے حکومت کرنے دو۔ وہ جیسے چاہے، اسے ویسے حکومت کرنے دو۔

سوال یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں اتنی حکومتیں بنیں بگڑیں، مگر کیا کسی حکومت نے ’’ووٹر کو عزت دو‘‘ کی طرف توجہ دی۔

کسی نے بھی نہیں۔

یہ تو اب چونکہ خود نواز شریف پر افتاد آن پڑی ہے، سو انھیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا معاملہ یاد آ گیا ہے۔

ویسے …

اگر ملک کے معاملات آئین کے مطابق نہیں چلا سکتے، تو آئین کو تحلیل کر دیں

سیاسی قضیے: اتوار 11 مارچ، 2018

ایک جانور بھی کسی جگہ رہتا ہے تو اسے اس جگہ سے کچھ نہ کچھ لگاؤ ہو جاتا ہے۔ مگر یہ پاکستان کیسا ملک ہے، اس کے اشرافی طبقات کو ستر برس بعد بھی اس ملک، اس کی زمین، اس کے لوگوں سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ ملک کی سیاست اور معیشت پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مالِ غنیمت کو لوٹنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اور یہی وہ سبب ہے کہ ہر ادارہ سیاسی ریشہ دوانیوں سے گہنایا ہوا ہے۔

زیادہ دور نہیں جاتے۔ صرف گذشتہ دو حکومتوں کو پیشِ نظر رکھ لیں، یعنی پیپلز پارٹی اور حالیہ مسلم لیگ ن کی حکومت۔ ابھی اس قضیے کو رہنے دیتے ہیں کہ انھوں نے کیا کیا اور ان کی کارکردگی کیسی رہی۔ ابھی صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ کیا جاتا رہا۔ غالباً انھیں ایک …

سیاست کے سینے میں آئین کیوں نہیں دھڑکتا؟

سیاسی قضیے: منگل 6 مارچ، 2018

چند برس قبل، میں نے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کی مختلف دستاویزات دوبارہ دیکھنی شروع کیں، جن میں ان کی طرف سے شائع ہونے والے تجزیات، رپورٹیں، سالانہ جائزے، وغیرہ، شامل تھے۔ یہ چیزیں میرے پاس پہلے سے دستیاب تھیں، کیونکہ میں خود بائیں بازو سے وابستہ رہا تھا۔

ان دستاویزات کے مطالعے کے دوران، جس چیز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ’’آئین‘‘ کے ذکر کا مفقود ہونا تھا۔ ان میں قریب قریب تمام دستاویزات 1973 کے بعد سے تعلق رکھتی تھیں، مگر ان کے پس منظر میں ’’آئین‘‘ کہیں موجود نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، پاکستان سوشلسٹ پارٹی، یا مزدور کسان پارٹی کی دستاویزات۔

کیا یہ حیران کن امر نہیں!

سوال یہ ہے کہ کیا آئین کو سامنے رکھے بغیر، کوئی سیاسی گفتگو بامعنی ہو سکتی ہے، خواہ آئین کو تبدیل کرنے کی بات ہی کیوں نہ ہو …

Article 184 – interpreting it paradoxically

As far as the interpretation of the article 184 is concerned, common-sense understanding is altogether different. It has three clauses that form the whole of this article. Its title is: The Original Jurisdiction of Supreme Court.

The first clause states: (1) The Supreme Court shall, to the exclusion of every other court, have original jurisdiction in any dispute between any two or more governments.

The second clause states: (2) In the exercise of the jurisdiction conferred on it by clause (1), the Supreme Court shall pronounce declaratory judgments only.

The third and the last clause states: (3) Without prejudice to Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter 1 of Part II is involved, have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article.…

Pak polity – racing backwards

So to say, in about 70 years, the political gains Pakistan’s polity has been able to make are dismal! Pessimistically, it’s NOTHING! Optimistically, it’s merely the Constitution that itself came to be agreed upon about 25 years after the country’s emergence on the map of the world. That casts a heavy doubt on the credence of Pakistan’s polity. Politically speaking, things stand in the same mould now they stood on the first day. The final verdict on the quality of the Pak polity may thus be worded: The citizens still live at their own risk in a country which is consuming itself by its own pseudo-nationalist, religious, militarist rhetoric!
No wrangling, the fact is that no politician and no political party find the constitution and its provisions tolerable to their will and temperament; they trample them whenever they see any of it

Why Pakistan is not a viable state?

Better to start with two clarifications: First, this piece does not raise the question of Pakistani state’s viability in the sense Pakistan’s Leftists and liberals are wont to discuss it. They say something like that: It’s unviable because it was created by the British in line with their policy of Divide and Rule; It’s unviable because it was created by the narrow-mindedness of Hindus or the Congress, or the stubbornness of Muslims or the League. They also hold that: It’s unviable because religion is never the basis of any state. The writer prospectively believes that states are not rational entities; they may come into existence, and disintegrate and disperse into more entities with or without any rational justifications. It’s like individuals or groups of human beings who want to live separately for any concrete or imagined grievances or none at all that

Islamabad sit-ins – who is the culprit

In the matters of running the state of Pakistan, penetration of politics, politicians and political considerations have marred the capability of the state to think clearly, act accordingly and punish promptly; which has weakened it to such an extent that in most of the cases the state is conspicuous by its absence, resulting in increasing anarchy in the country. It was back in 1953 that Justice Munir Inquiry Report concluded thus: “And it is our deep conviction that if the Ahrar had been treated as a pure question of law and order, without any political considerations, one District Magistrate and one Superintendent of Police could have dealt with them. Consequently, we are prompted by something that they call a human conscience to enquire whether, in our present state of political development, the administrative problem of law and order cannot be divorced from

Charter of Democracy’s half truth

As the Pakistan Tehreek-e-Insaf and Pakistan Awami Tehreek launched this August 14 their “Azadi March” and “Inqilab March” respectively, and then undertook the Sit-Ins (Dharnas) in Islamabad; day by day it was increasingly perceived as a deadly threat to political constitutional set-up prevailing in the country. With worsening law and order situation in the capital including the fears of occupation of state buildings by the marchers, the fear of military intervention loomed large on the political horizon. However, in the face of it something very surprising took place: All the political parties sitting in the parliament reposed and reiterated their complete confidence in the current political set-up, including the government, rejected the marchers’ calls for prime minister’s resignation, dissolution of national and provincial assemblies, and holding of mid-term elections. More to it, bar associations and civil society organizations throughout the country supported

Media wars

It is essential to seek out enemy agents who have come to conduct espionage against you and to bribe them to serve you. Give them instructions and care for them. Thus doubled agents are recruited and used. [Sun Tzu]
Before March 9, 2007, it was all dark on the horizon of Pakistan. A military dictator was ruling while dressed in khaki uniform; he was intent upon continuing his rule for the next 5 years; and the criminal politicians were all ready to help him rule for more than a hundred years. Such was the hopelessness that no rational being could dream of a silver lining. One could only fear what happened to Iraq after it grabbed Kuwait, may not happen to Pakistan.
All of a sudden, and it was just like a bolt from the blue, a hope started taking shape. First time in Pakistan, the point was made that