ریاست کو نئے سرے سے آئین کے مطابق ڈھالنا ہو گا

نوٹ: یہ تحریر 13 دسمبر 2019 کو ’’نیا دور‘‘ پر شائع ہوئی۔

https://urdu.nayadaur.tv/26108/

لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلا کا دھاوا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔

تو پھر خرابی کہاں ہے؟

سوال تو یہ ہے کہ خرابی کہاں نہیں؟

بس ایک آئین ہے، جس سے امید باندھی جا سکتی ہے۔ مگر آئین تو محض ایک اخلاقی دستاویز ہے۔ اس پر عمل تو ہوتا نہیں۔

طاقت ور گروہ اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ ریاستی اشرافیہ، اور اس کے مختلف طبقات، جیسے کہ سیاسی اشرافیہ، فوجی اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ، وغیرہ، اس پر عمل نہیں ہونے دیتے۔ اشرافیہ کے طبقات نے ریاست اور اس کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ آئین اور قانون کو اپنی ضرورت اور فائدے کے مطابق ڈھالتے اور توڑمروڑ لیتے ہیں۔

یعنی جیسا کہ عیاں ہے کہ ریاست لوگوں کے لیے ہوتی ہے، لوگ ریاست کے لیے نہیں۔ مگر …

انفرادی انقلاب سے اجتماعی و ریاستی انقلاب تک

سیاسی قضیے: 25 اپریل، 2018

اس بات کا احساس و ادراک تو خاصے عرصے سے تھا۔ مگر یہ بات ابھی کچھ برس قبل ایک نظریے کی صورت اختیار کر پائی ہے۔

اس کی پہلی نمایاں مثال جو مجھے یاد آتی ہے، وہ اس وقت سے تعلق رکھتی ہے، جب میں ایم اے کر رہا تھا۔

فلسفے کے ایک فارغ التحصیل صاحب اکثر شعبۂ فلسفہ میں تشریف لایا کرتے تھے۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ آتے اور کچھ اساتذہ اور کچھ طلبہ سے ملتے ملاتے، گپ شپ لگاتے اور چلے جاتے۔

ایک دن سعید اقبال واہلہ نے بتایا کہ وہ مسرور خاں آئے تھے آج۔ ملے تو مجھے کہنے لگے: عبداللہ علیم، میں سول جج بن گیا ہوں۔

واہلے نے کہا: میں عبداللہ علیم نہیں، سعید اقبال ہوں۔

مگر مسرور خاں بولے: تم جو کوئی بھی ہو، میں سول جج بن …