شیریں مزاری پر کونسے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے
دانشور اشرافیہ، ثقافتی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ کا ایک مخصوص حصہ شیریں مزاری پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ ٹوٹے ہیں، ان پر ہاہا کار مچائے ہوئے ہے۔
یہ ہاہا کار اس وقت بھی مچی تھی، جب ایک مرتبہ پہلے انھیں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی دختر ایمان مزاری نے جینرل باجوہ کو گالی دی تھی۔ اور غالبأ ایک اور موقعے پر شیریں مزاری نے خود جو پولیس انھیں گرفتار کرنے آئی تھی، انھیں بھی گالی دی تھی۔
ایمان مزاری نے اپنی والدہ کی پے در پے گرفتاری پر جو اشک بہائے، ان پر بہت دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ کسی ’’سیاسی قائد‘‘ (شیریں مزاری) پر ظلم ہوا ہے۔
گو کہ یہ واضح نہیں کہ شیریں مزاری تحریکِ انصاف میں کیونکر اور کیسے شامل ہوئی تھیں، اور اب اگر یہ مان بھی …
اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ کا اجارہ کیونکر قائم ہے
اگر کوئی شخص اپنی نارمل زندگی سے اوپر اٹھ کر اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ کے تانے بانے کو توڑنا چاہے، ریاست اور اس کے وسائل پر ریاستی اشرافیہ کے غیر آئینی غیر قانونی قبضے کو چیلنج کرنا چاہے، دانشور اشرافیہ نے فکر و نظر کے اشاعت کدوں پر جو اجارہ قائم کیا ہوا ہے اس پر سوال اٹھانا چاہے، تو اسے تنہا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے تصورات، نظریات اور تجزیات کو گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کام محض اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ ہی نہیں کرتی، بلکہ اصل میں یہ کام اجلافیہ، بزعمِ خود اجلافیہ کے نمائندے، اشرافیہ پسند اور اشرافیہ پرست کرتے ہیں۔
مگر اب آج سوشل میڈیا دستیاب ہے، جو کم از کم اوپر جس کا ذکر ہوا ایسے فرد کے تصورات، نظریات اور تجزیات کو تنہائی کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ گو کہ اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور …
Aristocratization / Bureaucratization of Adabi Baithak (ادبی بیٹھک), Lahore
My new book, “Pakistan’s Democratic Impasse: Analysis and the Way Forward” published / released
Lahore April 8, 2014: Alternate Solutions Institute released today Dr. Khalil Ahmad’s new book, Pakistan’s Democratic Impasse – Analysis and the Way Forward. Already this in 2012 and this February, he has published three books, “Pakistan Mein Riyasti Ashrafiya Ka Urooj” (The Rise of State Aristocracy in Pakistan, February 2012), “Siyasi Partian Ya Siyasi Bandobast: Pakistani Siyasat Ke Pech-o-Khum Ka Falsafiyani Muhakma” (Political Parties Or Political Arrangements: A Philosophical Critique of the Intricacies of Pakistani Politics, July 2012), and, Pakistani Kashakash: Tehleel-O-Tadeel aur Aagay Barhany ka Rasta (Pakistani Armageddon: Analysis,