ووٹ کو عزت دو – ایک نامکمل سیاسی بیانیہ

سیاسی بیانیے سیاست کا رخ متیعن کرتے ہیں۔

جیسا کہ چند سال قبل مسلم لیگ (ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ سامنے آیا۔ یہ بیانیہ سویلین بالادستی کی عدم موجودگی پر دلالت کرتا تھا، اور کرتا ہے۔ یعنی سول حکومت کی بالادستی کے قیام پر اصرار اس کا خاصہ ہے۔

یہ بیانیہ پاکستان کی سیاسی حقیقت کو مخاطب کرتا ہے۔ اور اس کا حل بھی تجویز کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ جس سیاسی جماعت کو ووٹ ملیں، اس سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کی عزت کی جائے۔

لیکن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ ایک نامکمل بیانیہ ہے۔

کیوں؟ اور، کیسے؟

یہ بیانیہ اس لیے نامکمل ہے کیونکہ:

۔ ووٹ کو عزت دلانے کے لیے لڑنے کا عزم کرنے کے بجائے، یہ محض ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔ اس سے یہ باور ہوتا ہے کہ یہ مطالبہ کسی مصلحت سے بوجھل ہے۔ یعنی یہ بیانیہ …

میرا ووٹ کسی مظلوم و مجبور کے لیے نہیں

سیاسی قضیے: پیر 31 مارچ، 2018

جب میں نے گورنمینٹ کالج، لاہور، سال اول میں داخلہ لیا، تو سٹوڈینٹس یونین کے پہلے انتخاب میں ہی ایک حیران کن چیز دیکھنے کو ملی۔ ایک طرف راوینز فرنٹ تھا، دوسری طرف انجمنِ طلبۂ اسلام، اور تیسری طرف اسلامی جمیعتِ طلبہ۔ انتخاب سے ایک دن قبل، انجمنِ طلبۂ اسلام کے امیدوار کالج میں نمودار ہوئے، تو زخموں اور پٹیوں سے لدے پھندے۔ ہم سب پریشان اور متجسس تھے، ایسا ظلم کس نے کیا۔ الزام ایک طلبہ تنظیم پر لگایا جا رہا تھا۔ آپ قیاس کر سکتے ہیں کس پر۔

بعد ازاں، کھُلا کہ یہ ’’میک اپ‘‘ انتخاب جیتنے کا ایک حربہ تھا۔

تو کیا ایسا ہوتا ہے کہ لوگ، زخمی امیدوار کو مظلوم و مجبور سمجھ کر ووٹ بھی دے دیتے ہیں۔ میں آج بھی اس سوال سے دوچار ہوں۔

ہاں، ایسے لوگوں کو بھیک تو دی جاتی ہے، اور ان کی مدد …