Psychological and Philosophical Beings

Most Pakistanis are psychological creatures.
Only a minority elevates themselves to a philosophical level and a lot of them now and then relapse again into their psychological niche.
So we have very few philosophical beings in our midst.

What’s Danishwar Ashrafiya?

Danishwar Ashrafiya (دانشور اشرافیہ) is that class of intellectuals who has monopolized the publishing space, i.e. mainstream print and electronic media and publishing houses.
And sometimes it appears that this Danishwar Ashrafiya is the ‘main culprit.’

What ails Pakistan?

It’s the same ill that afflicts politics and economics in Pakistan.

Choosing winners and losers by employing unnatural methods.

In politics, it’s the establishment that does that.

In economics, it’s the governments that do that.

In both cases, the natural process of choosing winners and losers is thwarted.…

آپ شہر پسند ہیں یا ریاست پسند

میں ریاست اور حکومت کے نقطہء نظر سے لوگوں اور معاشرے کو دیکھتا ہوں تو میں ریاست پسند ہوں۔ اگر میں لوگوں اور معاشرے کے نقطہء نظر سے ریاست اور حکومت کو دیکھتا ہوں تو میں ریاست پسند ہرگز نہیں، بلکہ شہر پسند ہوں۔ اور تاریخی حقیقت بھی یہی ہے کہ لوگوں نے مل کر ریاست قائم کی اپنے تحفظ کے لیے۔ پھر حکومت بنائی تاکہ وہ ریاست کو چلائے۔ نہ کہ ریاست اور حکومت نے لوگوں کو جنم دیا۔ یہی وہ بنیادی اندازِ فکر ہے، جس سے ہماری سیاسیات اور معاشیات کا تعین ہوتا ہے۔

‘‘تیسری جنگِ عظیم کیسے ٹلی’’

فطرت میں جو کھیل تماشے ہو رہے ہوتے ہیں، وہ ہر کسی کی نظر میں آئے بغیر نہیں رہتے۔

ہم سب فطرت جو جو گُل کھِلا رہی ہوتی ہے، اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یعنی استعجاب ہمیں سب کو متاثر کیے رکھتا ہے۔ زندہ بھی رکھتا ہے اور متجسس بھی۔

گھر کی پہلی منزل پر جو برآمدہ ہے، اس کے آگے سائے کے لیے علاحدہ سے شیڈ بنا ہوا ہے۔

باہر گلی میں جہاں جہاں جگہ ملتی ہے، چڑیاں اپنے گھونسلے بناتی رہتی ہیں۔

بچوں نے سوچا یہاں گھر میں انھیں بنا بنایا گھونسلہ مہیا کیا جائے۔ تو اس شیڈ  کے نیچے چھت کی دیوار کے ساتھ گتے کا ایک ڈبہ لٹکا دیا۔ سامنے کی طرف دروازہ بھی بنایا گیا۔ اوپر ڈھکنوں پر ٹیپ لگا دی۔

کئی مہینے یونہی گزر گئے۔ کبھی کوئی چڑیا یا چِڈا آ کر بیٹھ جاتا۔ اور پھر

Political Engineering =+<*> Economic Engineering

The political engineering has utterly failed and thrown the politics into a bottomless pit.

In the same way, economic engineering too has miserably failed and put the economic state of the people into a despairing helplessness.

What’s political engineering?

It’s the management of choosing political losers and winners disregarding the will of the people. That is, it tampers with the natural flow of the political process and everything related with it, in order to arbitrarily decide who’s going to be the winner and who the loser in an election or otherwise.

Now and then this or that political party or parties become complicit in this management of tampering with the political process or will of the people.

In short, political engineering is all about choosing winners and losers in politics anti-constitutionally and against the will of the people.

Who are the political engineers?

In the first place, and mainly, the …

ریلیف کی سیاست اور ریلیف کی معاشیات

ریلیف کا لفظ جیسے کہ ایک تکیہٴ کلام بن گیا ہے۔ خاص طور پر دانشوروں کا تکیہٴ کلام۔ اور یہ دانشور کون ہیں۔ بھئی پاکستان میں اس وقت دانشور وہ چنیدہ لوگ ہیں، جو صحافی ہیں، جو ٹی وی چینلوں اور یوٹیوب پر گفتگو اور بحث کر رہے ہیں۔ اور جو اخبارات میں کالم اور مضامین لکھ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ بلا سوچے سمجھے ’’غریبوں‘‘ کے لیے، عام شہریوں کے لیے، حکومت سے ریلیف کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

آج کل کیونکہ وفاقی حکومت نے قومی اسیمبلی میں مجوزہ بجٹ پیش کیا ہوا ہے، اور صوبائی حکومتوں کے مجوزہ بجٹ بھی سامنے آ رہے ہیں، لہذا، ریلیف کی تکرار اور شور بہت زیادہ ہو گیا ہے۔

اسی طرح، جب کوئی انصاف کی طلب میں عدالت کا دروازہ کھڑکھڑاتا ہے، تو یہی تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ عدالت ریلیف دے۔ یا پھر جب عدالت لگ چکتی ہے

بجٹ یا حکومت کا لاگت ۔ فائدہ (کاسٹ ۔ بینیفٹ) تجزیہ

ویسے میں ہر برس بجٹ پر لکھتا بھی نہیں۔ کوئی فائدہ بھی نہیں۔ یکساں چیزیں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں، وہ ویسے ہی بجٹ پیش کرتی ہیں، جیسے بجٹوں پر وہ خود تنقید کرتی ہیں، جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں۔ اور اپوزیشن بھی بجٹوں پر ویسی ہی تنقید کرتی ہے، جیسے بجٹ وہ خود پیش کرتی رہی ہیں، یا کریں گی، جب وہ حکومت میں ہوتی ہیں یا ہوں گی۔

باایں سبب، اس مرتبہ بھی بجٹ پر کچھ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ مگر عزیز دوست قادر بخش صاحب نے اس مالی سال کے بجٹ پر میری رائے مانگ لی اور  یوں مجھے لکھنے کا بہانہ مل گیا۔

روایتی قسم کا تبصرہ کرنے کے بجائے، میری کوشش ہے کہ کچھ سیدھی سیدھی باتیں کی جائیں۔

بجٹ پر نظر ڈالنے سے قبل دو باتیں بیان کر دینا ضروری ہے۔

اول یہ کہ ریاست …

پاکستان کی سیاست میں ایک بنیادی تبدیلی

[نوٹ: یہ تحریر لکھنے کے بعد میں بارہا یہ سوچتا رہا ہوں کہ سیاست دانوں میں اگر عزم و ارادہ موجود ہو، اور وہ کچھ کرنے کا تہیہ کر لیں، تو وہ کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ یعنی سیاسی و حکومتی اور سول معاملات میں قائمیہ کی ازلی و بھرپور مداخلت اور بالادستی کے باوجود وہ شہریوں کی بہتری کے لیے کچھ کام تو ضرور انجام دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس تحریر میں کہا گیا ہے کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی اور ٹیکس اصلاحات، یہ دو کام اور پھر اور بہت سے کام تو کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں، شرط یہ ہے کہ سیاست دان شہریوں پر اعتماد کریں اور ان کی طاقت پر انحصار کریں، پھر وہ کچھ بھی کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ 17 جنوری، 2023 ]

یہ محض رائے تبدیل ہونے کا معاملہ نہیں۔

ویسے جب باہر کچھ تبدیل ہوتا ہے، رائے بھی …

پاکستانی ریاست کی حقیقت ۔ ایک شہری کی زبانی

گذشتہ کچھ برسوں سے میں صحافی طلعت حسین کے یوٹیوب ولاگ باقاعدگی سے دیکھ سُن رہا ہوں۔

انھوں نے اپنے ولاگ میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے۔ ابھی 4 جون (2022) کو ان کے ایک ولاگ، ’’دا پبلک ہیز اے پرابلم؟ ۔۔۔‘‘ میں شہری محمد شفیق نے ایک سوال پوچھا۔ سوال کیا ہے، خود ایک پورا جواب ہے۔ اور جواب بھی ایسا جس نے پاکستانی ریاست کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا۔ انھی کی زبانی سنیے:

’’شاہ جی، محمد شفیق عرض کرناں تحصیل سانگلہ ضلع ننکانہ توں۔ شاہ جی، کوئی وی دور آیا اے، مہنگائی ایڈی ہو گئی اے، اگے تے ساڈی مہنگائی نے، کدی سِر ننگا ہو جاندا سی، کدی پیر ننگے ہو جاندے سی، ہُن تے تن ای ننگا ہو گیا اے۔ کہیڑی کیہڑی شے دا رونا پائیے۔ ایہہ گورمنٹاں نوں، خورے کِنے غلطی کیتی اے، کِنے کوتاہی کیتی اے، سزا ایہہ …

انفرادی شناخت کا مسئلہ، سیاست اور انصافیے

دوسرے اور بہت سوں کی طرح، میں بھی اس مسئلے پر سوچتا رہا ہوں کہ جیالے، نونیے، انصافیے، وغیرہ، کیسے اور کیونکر جنم لیتے ہیں۔

چکبست برج نرائن کے الفاظ میں، ان کے ظہور میں عناصر کی کیا ترکیب کام میں آتی ہے، اور ان کے اجزا پریشاں کیسے ہوتے ہیں۔ ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔

یا پھر اقبال کے انداز میں، یہ کونسے ’’چار‘‘ یا کم یا زیادہ عناصر ہیں، جو ہوں تو اس نوع کی ’’نوع‘‘ بنتی ہے۔

یہاں ابتدا ہی میں یہ بات سامنے رکھ دینا مناسب ہو گا کہ پہلے جو سیاسی انواع پیدا ہوتی رہی ہیں، جیسا کہ جیالے، پِپلیے، متوالے، نونیے، وغیرہ، اب گذشتہ دس بارہ برسوں میں جو ایک نئی ’’نوع‘‘ سامنے آئی ہے، اور جسے متعدد اور نام بھی دیے گئے ہیں، وہ نوعی طور پر ان تمام انواع سے مختلف ہے، جو ماضی میں جنم لیتی رہی ہیں۔

یہ نوع عمران …

PTI and One-Dimensional Men

Almost all the persons who joined IK (PTI) and devoted their wealth and energy to bolster his image and politics are without any exception one-dimensional men.

Not the politicians who jumped into the PTI-ship purposely. They are an exception.

One-dimensional men cannot see that the reality is a complex structure/phenomenon.

And they can’t understand the multilayered reality in its complex manifestations.

Thus they try to make everything and everyone conform to their black and white view of reality.

There they fail miserably, or fail themselves miserably.

The whole IK-PTI complex is an example of it. They failed miserably and they failed the state/government/society miserably.…

معلومات پر مبنی تجزیے کرنے والے اندھیرے میں‌ ٹامک ٹوئیاں‌ مار رہے ہیں

کسی کو کچھ پتا نہیں کون کیا کرنے جا رہا ہے۔

کون کیا کرے گا۔

کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔

یعنی تجزیہ کاروں کے پاس کوئی معلومات نہیں۔ انھیں معلومات نہیں مل رہیں۔ کہیں سے بھی نہیں۔

غالباً ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مہیا کی گئی معلومات کو بنیاد بنا کر تجزیہ کرنے والوں کو اپنی عقل و فہم کی مدد سے تجزیہ کرنا پڑ رہا ہے۔

اور یہی سبب ہے کہ یہ سب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ان کے تجزیے بے کار ہو کر رہ گئے ہیں۔

آیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قائمیہ اور سیاسی جماعتیں دونوں پریشان خیالی کا شکار ہیں اور انتظار کرو اور دیکھو کے بجائے کچھ کرنے کے قابل نہیں؟

کہنے سے مراد یہ ہے کہ سیاسی تجزیہ کرنے والوں کے پاس تجزیہ کرنے کے لیے کوئی اصول تو ہیں نہیں، اور ان کے …

The birth of populism, fanaticism and fascism in Pakistan

Zulfikar Ali Bhutto gave birth to Populists.

Zia ul Haq gave birth to Fanatics.

Imran Khan gave birth to Fascists.

All that would never have happened had they not been bestowed with political power, (via) judicial endorsement and establishment’s backing.…

Back to the Basics: Will of the People

The will of the people is supreme.

That is, their will via their representatives is supreme.

That is, all the entities brought into existence by the constitution though they be independent in the performance of their mandate are accountable to the people’s representatives.

It is thus that the representatives of the people are accountable to the people by mainly way of fair, free and transparent elections.

But practically all that has long been rigged in favor of the unelected entities.

That must change back to the constitutional scheme of things.

The Ultra-Executive

In Pakistan, another organ of the state has come into existence.
That is Ultra-Executive.
Security Establishment is the core of it and Judiciary and the ECP are an integral part; without them no political engineering is possible.
Now the only thing that remains affiliatable and accountable to the people is Parliament (Legislature) and that only when free, fair and transparent elections are allowed to be held.
That’s how the Riyasati Ashrafiya (ریاستی اشرافیہ) is evolving in Pakistan.

Understanding political reality

Like other realities such as physical or social, the political reality too is layered.
It’s not the surface and the bottom that make it.
So understanding political reality requires multilayered thinking and analytical skills.
And in order to change the political reality, a multilayered approach is a sine qua non.
Linear and binary thinking and approach may not help, and one is always stuck in a rut.

سپریم کورٹ کا مخمصہ ۔ درونِ دائرہ حل

قومی اسیمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے سے متعلق، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ کے ضمن میں سپریم کورٹ کا از خود نوٹس، اور اس سے متعلق دوسری اپیلوں پر متعلقہ بینچ نے شنوائی پر کوئی پانچ دن صرف کیے۔ اور پانچویں دن شام ڈھلے مختصر فیصلہ سنایا۔ یہ پانچ دن، پاکستان کی سیاست اور مشوش شہری سولی پر لٹکے رہے۔ گو کہ جب فیصلہ آیا، تو غبار چھٹ گیا، اور سوائے تحریکِ انصاف اور اس کے پیروکاروں کے، کم و بیش ہر کسی نے اس پر مسرت و اطمینان کا اظہار کیا۔

تاہم، فیصلہ آنے کے بعد کچھ دیر اس مضمون پر توجہ قائم رہی کہ یہ پانچ دن کیسے گزرے۔ یہ پانچ دن ایسی تحریروں کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں، جیسے وہ پانچ دن، وہ سات دن، وغیرہم۔

بلاشبہ یہ پانچ دن پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں یادگار …

Politics is not Black & White

Politics is complex. It’s not Black & White.

If there is no more Black, that doesn’t mean now it’s all White. No, it’s Grey. A large Grey area.

From it, may emerge bits of White.

And it requires clarity, patience, perseverance and courage on our part.

Politics is a game of securing what we envision inch by inch while strictly following the constitution, moral values, political traditions, non-violence and peaceful means.…

Anti-Constitution, Anti-Democracy, Anti-Morality Politics is not going to stay here

IK-PTI, that’s a shallow phenomenon. It has no basis in the economic reality of the country.

The narrative of corruption, taking turns in power (PPPP-PMLN), was/is a negative, anti-constitution, anti-democracy, and anti-morality.

It’s not going to survive…provided it is not pumped up again, like it was done in 2011, 2014, and then finally in 2018.

In 2014, all the support was thrown into the project, be it media, ECP, judiciary, etc, and the non-civilians. All through the 3 plus years, the same support was provided. But it couldn’t deliver.

It’s a negative phenomenon, it’s all Negative politics (https://pakpoliticaleconomy.com/?p=2321)

بُغض کی سیاست اور حُب کی سیاست

It’s all based on a personalized/customized revenge strategy. It may remain there as an isolated group, but may not grow, rather is going to be weakened in the coming months and years.

Without support from those who have been giving it support it won’t …