پاکستانی سیاست دانوں کی ذہنیت کی ایک مثال

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایم این اے کو سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے پر ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دیا۔ یہ بات تو علاحدہ رہی۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا انھیں اس پر کوئی شرمندگی ہوئی۔ قطعاً کوئی نہیں۔ بلکہ ان کا ردِ عمل چوری اور سینہ زوری کے مترادف ہے۔ اس سے متعلق کچھ خبریں ملاحظہ کیجیے:




[روزنامہ جنگ، 29 اکتوبر، 2013]

پاکستان کے جاسوس سیاست دان

دنیا میں یا پاکستان میں کہیں کچھ ہو، پاکستانی سیاست دانوں کو فوراً پتہ چل جاتا ہے، یہ کس نے کیا یا اس کے پیچھے کون ہے۔ باقی تفتیشی ادارے ابھی تفتیش شروع بھی نہیں کر پاتے، اور سیاست دان ’’مجرموں‘‘  کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ کچھ نمونے کی خبریں ملاحظہ کیجیے، جو سیاست دانوں کی جاسوسانہ ذہنیت کی مثالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستانی ریاست کو چاہیے، تمام جاسوسی و تفتیشی اداروں میں سے ماہرین وغیرہ کو نکال باہر کرے، اور سیاست دانوں کو بھرتی کر لے:

[روزنامہ جنگ، 21 ستمبر، 2013]
[روزنامہ جنگ، 25 ستمبر، 2013]

[روزنامہ جنگ، یکم اکتوبر، 2013]
[روزنامہ جنگ، یکم اکتوبر، 2013]

[روزنامہ جنگ، 11 اکتوبر، 2013]

[روزنامہ جنگ، 12 اکتوبر، 2013]

[روزنامہ جنگ، 29 اکتوبر، 2013]

قبائلی شہری اور ڈرون حملوں کی حمایت

پاکستان کے قبائلی علاقوں کے شہری ڈرون حملوں کے حامی ہیں۔ یہ خبر کسی عام اور غیر معتبر ذریعے سے جاری نہیں ہوئی، بلکہ نہایتا مستند سمجھے جانے والے اکانومِسٹ کی طرف سے آئی ہے۔  ملاحظہ کیجیے:
[روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، 20 اکتوبر، 2013]
تفصیل جاننے کے لیے نیچے دیے گئے لِنک پر جائیے:
:Drones over Pakistan – Drop the pilot

ریاستی اشرافیہ کا گھریلو لین دین

کچھ معاملات سیاستی نہیں ہوتے۔ آج جو پارٹی حکمرانی کر رہی ہے، کل وہ بھی حزبِ اختلاف میں بیٹھی ڈنڈے بجا رہی ہو گی۔ سو معاملہ فہمی اچھی بات ہے۔ یہ خبر ملاحظہ کیجییے، اور سر دھنیے:

[روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، 2 اکتوبر، 2013]

سعادت حسن منٹو اور دو کالم نگاروں کی پنجہ آزمائی

انتظار حسین کی اردو پڑھنے لائق ہوتی ہے۔ اسی لیے میں باقاعدگی سے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کا ادارتی صفحہ ضرور دیکھتا ہوں۔ گو  کہ ان کے کالم میں کتابت کی غلطیاں کنکر پتھر کا کام کرتی ہیں، اور میں سوچتا ہوں کہ ان کے کالم کو کتابت (کمپوزنگ) کے بعد پرکھا جاتا ہے یا نہیں۔ اور اگر پرکھا جاتا ہے تو کون پرکھتا ہے۔ ظاہر ہے وہ خود تو نہیں پرکھتے۔

خیر ان کا کالم دیکھتے ہوئے دوسرے کالموں پر بھی نظر پڑ جاتی ہے۔ 20 ستمبر کو یہی ہوا۔ ایک کالم کا عنوان تھا: ’’کچھ منٹو کے بارے میں‘‘۔ منٹو کے ذکر کے سبب میں اس کالم پر رک گیا۔ نصرت جاوید نے اس کالم میں ایک ’بڑے ہی محترم ہم عصر‘ کا ذکر کیا، جو ’علم و تقویٰ کی بنیاد پر گنہگاروں کو اکثر شرمسار کرتے ہیں۔‘ نصرت جاوید نے یہ بھی بتایا کہ وہ ’اپنے اندر کے شیطان

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: غلط سوال، صحیح جواب

نوٹ: رپورٹ ڈاؤن لوڈ کیجیے: ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ


[یہ تصویر الجزیرہ کی ویب سائیٹ سے لی گئی ہے۔]


پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا, جو بالآخر لاہور میں مارشل لا کے نفاذ پر منتج ہوا۔ یہ1954-1953  کی بات ہے۔ پہلی پہلی تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی، جو دو معزز و محترم جج حضرات پر مشتمل تھی۔ جسٹس محمد منیر اس عدالت کے صدر اور جسٹس ایم- آر کیانی واحد رکن تھے۔ انھوں نے تحقیق کی اور تحقیق کا حق پورا پورا ادا کیا۔ پھر رپورٹ لکھی، اور کیا خوب رپورٹ لکھی۔ چونکہ ابھی حکومت اور اربابِ اختیار و اقتدار نے عیاری و مکاری کے سبق نہیں سیکھے تھے، اور یہ یقین رکھتے تھے کہ ہر کوتاہی اور مجرمانہ غفلت کے لیے وہ شہریوں کو جواب دہ ہیں، لہٰذا، یہ رپورٹ من و عن شائع کر دی گئی۔ نہ صرف اصل انگریزی

میڈیا کی کام چلاؤ اردو

کافی عرصے سے پاکستان میں ایک بات دہرائی جاتی رہی ہے کہ تدریس کے شعبے میں صرف وہ لوگ آتے ہیں، جو اور  کسی شعبے میں کھپ نہیں پاتے۔ اس پر میرا ردِ عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ جو لوگ تدریس کے شعبے میں کھپ نہیں پاتے، وہ صحافت میں جا بستے ہیں۔ اس کا پس منظر پاکستان میں صحافت کی حالتِ زار تھی، جو اب مزید ابتر ہو گئی ہے۔

کچھ دنوں پہلے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں پھر اسی تعصب کی تکرار سنی گئی۔ ایک ’’ماہرِ تعلیم‘‘ نے فرمایا: ’ہمارے معاشرے میں جو کچھ نہیں بنتا وہ ٹیچر بن جاتا ہے۔‘‘

[روزنامہ ’’جنگ‘‘ 28 اگست، 2013]

اس بات میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے: جو کچھ نہیں بننا چاہتا، بس زندگی کا کام چلانا چاہتا ہے، وہ پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں جا گھستا ہے۔ کیونکہ یہاں ہر کوئی ’’ماہر‘‘ ہے۔ بلکہ حیرانی کی بات یہ

ڈاکٹر صفدر محمود اور حبیب جالب کے ایک مصرعے کی گت

اب آتے ہیں آج کے ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے کالموں کی طرف۔ ان سب کو پڑھنے کے لیے اور پھر ان پر رائے زنی کے لیے بہت وقت درکار ہو گا۔ سرسری انداز میں دیکھنے سے جو چیز فوراً نظر میں آئی، وہ ہے ایک کالم کا عنوان۔

عنوان یہ ہے: ’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘

پہلے میں نے سوچا کہ یہ کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی ہو گی۔ یہی دیکھنے کے لیے میں نے پورا کالم دیکھ ڈالا۔ کالم کے آخر میں یہ الفاظ درج ہیں:

’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘     

کالم لکھنے والے ہیں ڈاکٹر صفدر محمود۔ یہ ایک نامی گرامی بیوروکریٹ رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے محقق اور مورخ ہیں۔ انھیں ان کی تاریخی کتب پر ’’پرائیڈ آف پرفارمینس‘‘ بھی مل چکا ہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’صبح بخیر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔

انھوں نے جس شعر کا ایک مصرع

سِول پاکستان کا مطلب کیا؟

جب اردو بلاگ کے لیے ’’سول پاکستان‘‘ کا نام میرے ذہن میں آیا تو مجھے یہ ہر اعتبار سے جامع اور مانع محسوس ہوا۔ میں نے چند لغات وغیرہ دیکھیں، اور اس طرح میرے تاثر کی تصدیق ہو گئی۔ یہاں بھی میں صرف لغات اور قاموسوں کی مدد سے لفظ ’’سول‘‘ کے مفہوم و معنی کی تشریح اور تصریح کی کوشش کروں گا۔

فیروزاللغات:

(۱) غیر فوجی ـ شہری (۲) انتظامی ـ تمدنی (۳) خلیق ـ مہذب ـ ملنسار ـ بھلا مانس

فرہنگِ آصفیہ:

(۱) ملیٹری کا نقیض ـ ملکی ـ مالی ـ دیوانی ـ انتظامی ـ تمدنی (۲) خلیق ـ سنجیدہ ۔ مہذب ـ بھلا مانس ـ شریف ـ ملنسار ـ خواندہ ـ تعلیم یافتہ
نوراللغات:

۱ ـ فوجی کا نقیض ـ ملکی ـ مالی ـ انتظامی ـ ۲ ـ سنجیدہ ـ مہذب
انگریزی ـ اردو ڈکشنری، مرتبہ: ڈاکٹڑ ایس ـ ڈبلیو فیلن:

1۔ شہری ـ ملکی
2

کتاب دوست اور کتاب دشمن معاشرے

یہ سال 1993 کی بات ہے کہ میں نے اپنی شاعری ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ میں بھیجنی شروع کی۔ یہ شاعری چھپی تو میں نے حوصلہ پکڑا، اور مضامین بھی بھیجنے لگا۔ آہستہ آہستہ رسالے کی ایڈیٹر صدیقہ بیگم سے کچھ جان پہچان ہو گئی۔ اب مجھے درست طور پر تو یاد نہیں، ہوا اس طرح کہ ایک روز صدیقہ بیگم کا فون آیا۔ وہ کہہ رہی تھیں: میں اپنی لائبریری کی کتابیں دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری (لاہور) لے کر گئی تھی، انھوں نے کہا، ہمارے پاس جگہ نہیں، ہم تو نہیں لے سکتے۔ میں نے سوچا اب یہ کتابیں کسے دوں تو آپ کا نام میرے ذہن میں آیا، آپ اسی وقت آئیں، کتابیں گاڑی میں ہی موجود ہیں، لے جائیں۔

[نوٹ: ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ویب سائیٹ وضع ہو چکی ہے، جہاں اس کے پرانے شمارے دستیاب ہیں۔]


کتابیں، یہ تو میرے لیے نعمتِ غیر مترقبہ تھی، میں نے

غزل ـ قاتلوں نے شہر پر قبضہ کیا اچھا کیا

[پشاور میں مسیحی شہریوں کے قتلِ عام پر بے بسی کا اظہار]

(میں سوچتا ہوں اگر شاعری نہ کر سکتا تو ہو سکتا ہے کچھ اور سوچتا اور عملاً کچھ کرتا کہ پاکستان کو ایک قتل گاہ سے گہوارۂ امن و سکون کیسے بنایا جائے۔)

قاتلوں نے شہر پر قبضہ کیا اچھا کیا
زندگی کی بزم کو چلتا کیا اچھا کیا
وہ جو رنگا رنگ تھیں رنگینیاں سی جا بجا
ہائے بد رنگی انھیں بھدا کیا اچھا کیا
چشمۂ شفاف پھیلاتے تھے ہر سو تازگی
دھوئیں تلواریں انھیں گدلا کیا اچھا کیا
تیشۂ سنگین سے ٹکرائی جو شمع کی لوَ
غیض نے سورج کو ہی بُجھتا کیا اچھا کیا
کونسا پہلے یہاں بہتی تھیں نہریں دودھ کی
ہر روش کو خون آلودہ کیا اچھا کیا
[22 ستمبر، 2013]

”پاکستا ن میں ریاستی اشرافیہ کا عروج“

کتاب:”پاکستا ن میں ریاستی اشرافیہ کا عروج“ شائع ہو گئی
مصنف کے مطابق کتاب ”اشرافیہ کا نہیں، سب کا پاکستان“ کا نعرہ وضع کرتی اور اس نعرے کو فلسفیانہ بنیاد بھی مہیا کرتی ہے
’یہ کتاب پاکستا ن کے شہریوں کی زندگی بدل سکتی ہے،‘ مصنف ڈاکٹر خلیل احمد

لاہور، 21 فروری 2012: اے، ایس، انسٹیٹیوٹ، لاہور، نے آج ڈاکٹر خلیل احمد کی تازہ ترین کتاب، ”پاکستان میں ریاستی اشرا فیہ کا عروج“ ریلیز کر دی ہے ۔ یہ کتاب پاکستانی اشرافیہ کو آئین اور قانون کی حکمرانی اور بالا دستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہے ۔ اس کے مطابق پاکستانی اشرافیہ، ریاست، ریاستی اداروں اور ریاست کے وسائل پر پھلتی پھولتی ہے ۔ یہ نہ صرف پاکستانی ریاست پر قابض ہے، بلکہ ریاستی اداروں پر قبضے کے ذریعے اس نے مارکیٹ کو بھی اغوا کیا ہو ا ہے ۔ اشرافیہ کے قلب، یعنی سیاست

عرفان صدیقی اور حلوائی کی دکان

عرفان صدیقی کہنہ مشق کالم نگار ہیں۔ رائے بنانے اور پھر اس کے اظہار میں سنجیدگی کو ہاتھ سے نہیں دیتے۔

تاہم، بعض اوقات اور بعض مقامات پر ان کی اردو اُکھڑی اُکھڑی معلوم ہوتی ہے! اور کبھی کبھی ایسی کوتاہیاں منہ چڑاتی دکھائی دیتی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ جب کوئی لکھنے والا شہرت پا لیتا ہے اور بہت زیادہ پڑھا جانے لگتا ہے تو اس پر ذمے داری کا بوجھ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ اگر وہ غلط زبان لکھ رہا ہے، غلط دلائل دے رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ غیرمحسوس انداز میں اپنے قارئین کی ’’غلط تربیت‘‘ کر رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو ہمیں اس کی بنیادی شرائط اور تقاضے نظر انداز نہیں کرنے چاہیئیں۔ خواہ کوئی کالم لکھ رہا ہے، یا ناول، زبان سے بے توجہی

اندھا بانٹے ریوڑیاں ـ ـ ـ

نئے انتخابات ہو گئے۔ نئی حکومت بن گئی۔ مگر اندھوں کا کاروبار اسی طرح چالو ہے۔ وہ ہر پھر کر ریوڑیاں اپنوں کو ہی بانٹے چلے جا رہے ہیں!

یہ خبر ملاحظہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ، 13 ستمبر، 2013]

خیبر پختونخوا ـ ’’پپو یار تنگ نہ کر‘‘

خیبر پختونخوا میں انتظامی معاملات میں ہمہ گیر اور ہمہ جہت سیاسی مداخلت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ ایک گذشتہ پوسٹ میں اس کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ دوبارہ نظر ڈالیے:

انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کی انتہا
صوبے میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور اس کے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک نے ایک دن میں 32 پارلیمانی سیکریٹریزکی تقرری کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس ضمن میں جب صحافیوں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ بھڑک اٹھے: 


[روزنامہ جنگ، 13 ستمبر، 2013]

بے شرم جمہوریت

یہ پوسٹ گذشتہ پوسٹ: ’’جھوٹ کے پاؤں اور جھوٹ کا دماغ‘‘ سے جُڑی ہوئی ہے۔

جیسا کہ آصف علی زرداری کی شان میں زمین آسمان ایک کرنےکی کوشش کی گئی۔ اگلے روز روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہی اس کا جواب چھپا اور زمین کو آسمان سے جدا کرنے کا جتن کیا گیا۔ یہ جتن ملاحظہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ، 13 ستمبر، 2013]

اور پاکستان کی بے شرم جمہوریت کا فسانہ بس اتنا سا ہے کہ اس کا ہر چہرہ بے شرمی سے گہنایا ہوا ہے۔ یہ جو ’’جمہوریت شرم سے منہ چھپا رہی ہو گی‘‘ کے عنوان سے جواب چھپا، یہ کسی اور کی طرف سے نہیں، بلکہ جینرل مشرف کے شوکت عزیزانہ دور کے ایک وزیر نے لکھا تھا۔ شاید اخبار کے سٹاف میں سے کسی نے مضمون کے آخر میں یہ اضافہ کیا یا مصنف نے خود یہ اعتراف کیا کہ وہ کس دور میں وزیر رہا ہے:

’’مضمون

یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی ـ ایک اور سرخاب کا پر

سیاہی خشک ہونے کا محاورہ بھول جائیے۔ شیکسپیئر کو یاد کیجیے:

There are more things in heaven and earth, Horatio, 
!Than are dreamt of in your philosophy

پہلے خبر کی سرخی اور ذیلی سرخیاں ملاحظہ کیجیے:

نیول انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے اپنا ہی افسر اغوا کیا، تاوان وصول کیا
مغوی کے بہنوئی کے ساتھ لے جا کر بینک سے رقم نکلوائی اور نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا
29 دن سیل میں رکھا گیا، مغوی کے ہائیکورٹ پہنچنے پر نیوی افسران حرکت میں آگئے، ٹریبونل تشکیل

یہ ہے خبر کی تفصیل:

[روزنامہ جنگ، 3 ستمبر، 2013]

سابقہ پوسٹ ملاحظہ کیجیے: یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی
Another abduction by naval agency officials exposed

KARACHI: Another incident of abduction for ransom by officials of the Naval Intelligence has come to light.This time, the victim is not a common trader or citizen but a chief petty

یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی!

ابھی ’’شاہی سید والی خبر‘‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک اور خبر منظرِ عام پر آ گئی۔

پہلے یہ خبر 29 اگست (روزنامہ ’’جنگ‘‘) کو سامنے آئی۔ ملاحظہ کیجیے:

پھر 30 اگست (روزنامہ ’’جنگ‘‘) کو اس کی مزید تصیل شائع ہوئی:

اس کی تردید کا سامان بھی کیا گیا ہے۔ یہ بھی روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہی شائع ہوئی۔ گو کہ اب یہ خبر برقی میڈیا پر بھی پھیل چکی ہے۔ اس کی تردید آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ دیکھیے:

پاکستانیوں کی اس بے چارگی پر کیا کہا جا سکتا ہے۔

پاکستانی ریاست پاکستانی شہریوں کو کس کس طرح لوٹتی ہے، اس کی تفصیل ’’طلسمِ ہوشربا‘‘ سے کم ہوشربا نہیں۔

اسے انتہائے زوال ہی کہا جا سکتا ہے کہ جنھیں محافظ بنایا جائے، وہیں لٹیرے بن جائیں!

یہ حساس ادارے کتنے بے حس ہو چکے ہیں، یہ سوچ کر حواس گم نہ ہوں تو

پاکستان ـ قاتلوں کی ریاست

بحوالہ شاہ زیب قتل کیس

ٹیوٹ کا ترجمہ:
پاکستان تیزی سے ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، جسے قاتلوں کی ریاست کہا جا سکتا ہے، جو قاتلوں کے لیے ہے اور قاتلوں کے اختیار میں ہے۔

شاہ زیب قتل کے معاملے سے متعلق اب یہ خبر ملاحظہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ، 11 ستمبر، 2103]