سویز مکتوب کوئی ایشو نہیں!

جب سے پیپلز پارٹی کا موجودہ دورِ حکومت شروع ہوا ہے، یہ ایک آسیب میں گرفتار ہے ۔ پہلے یہ آسیب معزول عدلیہ کی بحالی سے متعلق تھا، جب سے عدلیہ کی بحالی عمل میں آئی ہے، تب سے یہ آسیب ان کی عدم قبولیت کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جب سے اس بحال عدلیہ نے  این آر او کالعدم قرار دیا ہے، تب سے یہ آسیب مقابل کچھ زیادہ ہی ’پر تشدد‘ ہو گیا ہے ۔ اور پھر جب سے این آر او کے حکم پر عمل درآمد کی کاروائی شروع ہوئی ہے، تب سے تو یہ آسیب جیسے بوتل سے باہر آ گیا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اپنے آپے سے باہر ہو گیا ہے ۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ سویز مکتوب کا ایشو اصل ایشو نہیں ۔ یہ کوئی نئی پیش رفت نہیں ۔ اصلاً یہ وہی

پاکستان – تاریخ چلی الٹے پاؤں

فیروز اللغات (اردو) میں ’شہر آشوب‘ سے مراد ایسی نظم ہے، جس میں کسی شہر کی پریشانی و بربادی کا ذکر ہو ۔ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق (۱) وہ مدح یا زم جو شعرا کسی شہر کی نسبت لکھیں؛ کسی شہر کے اجڑنے یا برباد ہونے کا نظمیہ ذکریا ماتم؛ – – –
اور اگرشہر سے ملک اور دنیا مراد لی جائے، جیسا کہ معمول بھی ہے، تو ہر زبان کی بیشتر شاعری کو شہر آشوب میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ جب سے وجود میں آیا ہے، سراپا شہر آشوب بنا ہوا ہے ۔ اور اس کے اکثر شہریوں کی زندگی، شہر آشوب کا جیتا جاگتا نمونہ بنی ہوئی ہے ۔
اگر میں اپنی کچھ نظموں پر نظر ڈالوں تو ان میں سے کچھ اسی زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں ۔
جیسے کہ یہ نظم، جو ستمبر 1998

پہلی بات

ایک تو یہ کہ حکمران اور محکوم مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اور ان کے شہری مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران خواص اور عام شہری مختلف ہوتے ہیں۔
پھر یہ کہ افراد فطرتاً اچھے ہوتے ہیں یا بُرے، اس بات کا سیاسی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔ یا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کا سیاسی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ گو کہ یہ تعلق درسیاتی طور پر دوسرے علوم کے لیے اہمیت ضرور رکھتا ہے۔
پھر یہ کہ ترغیبات بالعموم افراد کو تبدیل کرتی ہیں، یا حالات انھیں جتنا تبدیل ہونے کی اجازت دیتے ہیں، وہ اتنا تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی، یا ’’پسماندہ‘‘ اور ’’ترقی یافتہ‘‘ دنیا کے دوسرے لوگ فطرتاً بُرے نہیں، اور وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔
پھر یہ کہ سب افراد ایک ہی طرح کے