اردو زبان کی امتیازی خصوصیات

اردو، پنجابی اور انگریزی زبانیں میرے خون میں شامل ہیں۔

اردو اور پنجابی تو ایسے ہیں، جیسے یہ خون میں بولتی ہوں۔ جبکہ، انگریزی اس طرح خون کا حصہ نہیں، جیسے اردو اور پنجابی رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں، اور آنکھ سے خون کی طرح ٹپکتی بھی ہیں۔

انگریزی اس طرح ہے، جیسے کسی کو تقویت دینے کے لیے خون لگایا جاتا ہے۔ یہ خون تولگ گیا، مگر جب انگریزی پڑھی تو اس نے دل موہ لیا۔ کیا انداز ہے اس زبان کا۔ اور جو کچھ اس زبان میں لکھا گیا اور جو کچھ اس زبان میں پڑھنے کو دستیاب ہے، اس نے تو زندگی کو مفہوم و معنی سے آشنا کر دیا۔ بلکہ ایک نئی زندگی سے معمور کر دیا۔

رضا علی عابدی سیدھے سادھے انداز میں بات کہتے ہیں۔ آج (6 ستمبر، 2013) کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ان کا کالم کچھ اردو زبان کے گن گاتا

پاکستانی عدلیہ کب معافی مانگے گی!

غنیمت ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے بحالی (بحالیوں) کے بعد پاکستانی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے دامن سے کچھ داغ دھو دیے ہیں۔ مگر پاکستان کے شہریوں سے ابھی تک اپنے ’’کردہ گناہوں‘‘ کی معافی نہیں مانگی ہے!

چلی کی عدلیہ نے معافی مانگ لی ہے۔ خبر دیکھیے:


[روزنامہ جنگ، 6 ستمبر، 2013]  

صارفوں کا خون چوسو اور اشتہار دو!

یہ اشتہار دیکھیے، جو لاہور ایلیکٹرک سپلائی کمپنی کی طرف سے دیا گیا ہے۔ کیا اس پر اٹھنے والا خرچ لیسکو نے اپنے عملے کی تنخواہوں میں سے ادا کیا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صارفین کا خون چوس اشتہار دینا، پرلے درجے کی بد عنوانی ہے!

اشتہار ملاحظہ کیجیے:

[روزنامہ جنگ، 6 ستمبر، 2013]

سویز مکتوب کوئی ایشو نہیں!

جب سے پیپلز پارٹی کا موجودہ دورِ حکومت شروع ہوا ہے، یہ ایک آسیب میں گرفتار ہے ۔ پہلے یہ آسیب معزول عدلیہ کی بحالی سے متعلق تھا، جب سے عدلیہ کی بحالی عمل میں آئی ہے، تب سے یہ آسیب ان کی عدم قبولیت کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جب سے اس بحال عدلیہ نے  این آر او کالعدم قرار دیا ہے، تب سے یہ آسیب مقابل کچھ زیادہ ہی ’پر تشدد‘ ہو گیا ہے ۔ اور پھر جب سے این آر او کے حکم پر عمل درآمد کی کاروائی شروع ہوئی ہے، تب سے تو یہ آسیب جیسے بوتل سے باہر آ گیا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اپنے آپے سے باہر ہو گیا ہے ۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ سویز مکتوب کا ایشو اصل ایشو نہیں ۔ یہ کوئی نئی پیش رفت نہیں ۔ اصلاً یہ وہی

پاکستان – تاریخ چلی الٹے پاؤں

فیروز اللغات (اردو) میں ’شہر آشوب‘ سے مراد ایسی نظم ہے، جس میں کسی شہر کی پریشانی و بربادی کا ذکر ہو ۔ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق (۱) وہ مدح یا زم جو شعرا کسی شہر کی نسبت لکھیں؛ کسی شہر کے اجڑنے یا برباد ہونے کا نظمیہ ذکریا ماتم؛ – – –
اور اگرشہر سے ملک اور دنیا مراد لی جائے، جیسا کہ معمول بھی ہے، تو ہر زبان کی بیشتر شاعری کو شہر آشوب میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ جب سے وجود میں آیا ہے، سراپا شہر آشوب بنا ہوا ہے ۔ اور اس کے اکثر شہریوں کی زندگی، شہر آشوب کا جیتا جاگتا نمونہ بنی ہوئی ہے ۔
اگر میں اپنی کچھ نظموں پر نظر ڈالوں تو ان میں سے کچھ اسی زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں ۔
جیسے کہ یہ نظم، جو ستمبر 1998

پہلی بات

ایک تو یہ کہ حکمران اور محکوم مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اور ان کے شہری مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران خواص اور عام شہری مختلف ہوتے ہیں۔
پھر یہ کہ افراد فطرتاً اچھے ہوتے ہیں یا بُرے، اس بات کا سیاسی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔ یا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس بات کا سیاسی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ گو کہ یہ تعلق درسیاتی طور پر دوسرے علوم کے لیے اہمیت ضرور رکھتا ہے۔
پھر یہ کہ ترغیبات بالعموم افراد کو تبدیل کرتی ہیں، یا حالات انھیں جتنا تبدیل ہونے کی اجازت دیتے ہیں، وہ اتنا تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی، یا ’’پسماندہ‘‘ اور ’’ترقی یافتہ‘‘ دنیا کے دوسرے لوگ فطرتاً بُرے نہیں، اور وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔
پھر یہ کہ سب افراد ایک ہی طرح کے