Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

چودھری شجاعت حسین کا سیاسی سچ

[سیاسی قضیے: [21 اگست، 2018

!سچ تو یہ ہے
چودھری شجاعت حسین
فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور
بار اول مارچ 2018
بار دوم اپریل 2018

توجہ: سیاست و معیشت سے متعلق کتب تبصرے کے لیے اس پتے پر بھیجیے: ڈاکٹر خلیل احمد، پوسٹ باکس نمبر: 933 جی پی او، لاہور۔ 54000

سچ بولنے کے کئی انداز ہو سکتے ہیں۔ پورا سچ نہ کہا جائے۔ یا صرف اپنا سچ بیان کر دیا جائے۔

جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے، تو ان کا سچ اکثر اوقات سیاسی ہوتا ہے۔ یعنی رات گئی، بات گئی۔ یعنی یہ سچ کسی مواد کا حامل نہیں ہوتا، بس بول دیا جاتا ہے۔ یہ علاحدہ بات ہے کہ سیاسی سچ جس موقعے پر بولا جاتا ہے، اس وقت جو سیاست دان یہ سچ بولتا ہے، اسے فائدہ ضرور دے جاتا ہے۔

جیسے کہ ’’پینتیس (35) پنکچر‘‘ والا (عمران خان کا) سچ ایک سیاسی بیان ثابت ہوا۔ اور ’’تمام حلقے کھولنے والے‘‘ (عمران خان کے بیان کے) سچ کے بارے میں تو پاکستان کے چیف جسٹس نے بھی تصدیق کر دی کہ یہ سیاسی سچ ہے؛ یعنی جھوٹ ہے۔

چودھری شجاعت حسین کا ’’سچ‘‘ بھی ادھورا سچ ہے۔ یہ یک طرفہ کہانی کہتا ہے۔ اگر کوئی مورخ کل ان کی اس کتاب کو تاریخی مواد کے طور پر استعمال کرنا چاہے گا، تو اسے متعدد دوسرے منابع کو سامنے رکھ کر، چودھری شجاعت کے ہر سچ کو پرکھنا پڑے گا۔

لیکن ایک بات عیاں ہے کہ چودھری شجاعت کا یہ ’’سچ‘‘ نہایت سادگی سے بیان کیا گیا ہے۔ اتنی سادگی سے کہ خود انھیں بھی خبر نہیں ہو گی کہ انھوں نے کیا کہانی بیان کر دی ہے۔

جب میں نے چودھری شجاعت کی کتاب، ’’سچ تو یہ ہے!‘‘ پڑھنا شروع کی تو ذہن میں ایک تصویر بننا شروع ہو گئی۔ جب کتاب ختم ہوئی، تو یہ تصویر کچھ مقدمات کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ یہ مقدمات ذیل میں درج کیےجاتے ہیں۔

۔ سیاست ایک کاروبار ہے

۔ کاوربار، سیاست کا حصہ ہے۔

۔ سیاست دان ایک بڑے مشترکہ گھرانے کے ارکان کی طرح ہیں۔

۔ فوج بھی اس بڑے مشترکہ گھرانے کا حصہ ہے۔

۔ صحافی بھی اس بڑے مشترکہ گھرانے میں حصے دار ہیں۔

۔ مشترکہ گھرانے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ بالعموم آئین اور قانون اس کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

۔ مشترکہ گھرانے کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ ایک طرف اس میں ’’شریکا‘‘ اور لڑائیاں، دھوکہ دہی، وغیرہ، اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں، تو دوسری طرف اتحاد، گٹھ جوڑ، میل ملاپ، وغیرہ، بھی چل رہا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ لڑائیاں، جان لیوا دشمنی تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔

۔ مزید یہ کہ اس کتاب کے مطالعے سے اس مشترکہ گھرانے کی جو تصویر ابھرتی ہے، وہ کچھ اس طرح کی ہے کہ اس میں کوئی سردار یا پنچ یا ’’بڑا بوڑھا‘‘ موجود نہیں، گو کہ مختلف مواقع پر مختلف لوگ یہ کردار نبھاتے ضرور نظر آتے ہیں۔ ہاں، مشترکہ گھرانے میں جو دھڑا طاقت ور ہو جاتا ہے، وہ اپنی منوانے لگتا ہے۔

۔ اس مشترکہ گھرانے کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ گو کہ اس میں اصول پسندی وجود نہیں رکھتی، مگر یقیناً لین دین اور سودے بازی کے اصول بنتے بگڑتے اور بدلتے رہتے ہیں۔

۔ آخراً یہ کہ مشترکہ گھرانہ کبھی کبھی غریب غربا اور عوام پر عنایاتِ خسروانہ بھی کرتا رہتا ہے۔

میں اس مشترکہ گھرانے کو ’’ریاستی اشرافیہ‘‘ کی اصطلاح سے بیان کرنا چاہوں گا۔ بلکہ میں یہ کام پہلے ہی کر چکا ہوں۔ چودھری شجاعت کی کتاب پڑھ کر تو اس کی مزید تصدیق حاصل ہوئی ہے۔ اس ضمن میں میری کتاب، ’’پاکستان میں ریاستی اشرفیہ کا عروج‘‘ دیکھی جا سکتی ہے۔

چودھری شجاعت کی کتاب اپنی سادگی میں، مختلف ممالک کی ’’ریاستی اشرافیہ‘‘ کے مابین بننے اور بگڑنے والے تعلقات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

:کتاب میں سے کچھ اہم نکات ملاحظہ کیجیے

جیسا کہ ذکر ہوا کہ پاکستان کی ریاستی اشرافیہ کے مشترکہ گھرانے کے لیے آئین اور قانون کی حیثیت بس گھر کی لونڈی کی طرح ہے، تو اس کی شہادت کتاب سے بھی بدرجۂ اتم دستیاب ہوتی ہے۔ اس میں آئین اور قانون کا ذکر کم ہی آتا ہے۔ اور چیزیں جس طرح بیان ہوئی ہیں، وہ اسی بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ سب معاملات ایک گھرانے کے درمیان چل رہے ہیں۔

ایک مقام پر ’’قانون اور انصاف‘‘  کا تذکرہ ملتا ہے، اور وہ بھی ضمیر کی خلش کو مٹانے کے ایک بہانے کے طور پر۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’ایک بار انھوں (ذوالفقار علی بھٹو) نے میرے والد کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’آپ قومی اسیمبلی میں میری بڑی مخالفت کرتے ہیں، آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘ میرے والد نے کہا۔ ’’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ملک میں صحیح معنوں میں قانون اور انصاف کی حکمرانی قائم ہو۔‘‘ ص: 37

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چودھری شجاعت کی تمام سیاست اس مقصد کے حصول کے لیے وقف ہو جاتی، مگر ’’سچ تو یہ ہے!‘‘ کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔

فوجی آمریت کے ساتھ مسلسل اور مستقل میل ملاپ اور آمروں کی سیاست، اور آمروں کے لیے سیاست کے ضمن میں بھی، ایک جگہ ضمیر کی کچھ خلش مذکور ہو جاتی ہے۔ جینرل ضیاالحق کی مارشل لائی حکومت میں شمولیت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:’’بھٹو صاحب کی حکومت کا تجربہ ہمارے خاندان کےلیے بڑا تلخ رہا تھا۔ ہمارے خاندان کو سیاسی اور کاروباری طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ میرے والد کو قتل کر کے راستے سے ہٹانے کی سازش بھی کی گئی۔ لہٰذا قدرتی طور پر جب جنرل ضیاالحق نے میرے والد کو اپنی عبوری کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی تو انہوں نے قبول کر لی۔‘‘ ص: 77

!یعنی قدرتی طور پر قانون کو پسِ پشت ڈالا جا سکتا ہے

ایک حیران کن امر یہ ہے کہ پوری کتاب میں کہیں یہ احساس جاگزیں نہیں ملتا کہ ریاست اصل میں لوگوں کے ٹیکسوں سے چلتی ہے۔ بلکہ الٹا عنایتِ خسروانہ کا بیان بارہا دہرایا جاتا ہے۔

نرسوں اور بوڑھوں کے لے ریلیف پیکیج. ص: 232

صنعتی کارکنوں کو مراعات. ص: 258

معذور اور بھکاری بچوں کے لیے خود مختار ادارے. ص: 259؛ وغیرہ

مگر کچھ اہم کاموں کا ذکر نہ کرنا، جن کا ذکر کتاب میں کیا گیا ہے، غیرمنصفانہ ہو گا، گو کہ ان کی حیثیت اور اہمیت کچھ بھی ہو۔

۔ فوری طبی امداد کے لیے ایف آئی آر کی شرط ختم. ص: 232

۔ ماس ٹرانزٹ ٹرین پراجیکٹ اور رِنگ روڈ. ص: 261

۔ صارف عدالتوں کا قیام. ص: 274

ایک نہایت اہم کام جو چودھری پرویز الہٰی کے دور میں انجام پایا، وہ 1122 ایمرجینسی (ص: 238) کا قیام ہے۔ یہ کام اتنا نتیجہ خیز اور عام لوگوں کے لیے اس قدر مفید ہے کہ خود چودھری پرویز الہٰی اور چودھری شجاعت کو اس کی عظمت کا احساس نہیں۔

کتاب میں وزیرِاعظم محمد خان جونیجو (1985-1988) کے کچھ کارہائے نمایاں کا ذکر یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ پاکستان میں ’’حکمرانی‘‘ کو جو کچھ کرنا چاہیے تھا، اگر کسی نے اس سے ملتا جلتا کوئی معمولی سا کام بھی کرنے کی کوشش کی، تو خود فوجی آمریت نے اسے برداشت نہیں کیا گیا۔ جہاں تک منتخب سیاسی حکومتوں کا تعلق ہے، تو انھیں ایسے کام کرنے کی توفیق کم ہی ہوئی۔

:چودھری شجاعت کے مطابق جونیجو اور جینرل ضیا کے مابین اختلافات کی وجوہات

۔ جونیجو کا یہ فیصلہ کہ مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور مارشل لا کے خاتمے کی تاریخ کا اعلان۔ ص: 92

۔ جونیجو کا یہ حکم کہ فوج کے سینیئر افسران بھی 800 سی سی کی چھوٹی سوزوکی کار میں سفر کریں گے۔ ص: 92

۔ جینرل مجیب الرحمٰن کی تبدیلی۔ ص: 92

۔ جینرل ضیا کے گھر کے مالی کی نوکری کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے انکار۔ ص: 93

۔ چین کے دورے پر جینرل ضیا کے ساتھ دو فوٹوگرافروں کے بجائے ایک کی منظوری، اور بطور تحفہ لے جائے جانے والے قالینوں کی تعداد میں کمی۔ ص: 93

۔ جونیجو کا حزبِ اختلاف کو اعتماد میں لے کر جینیوا معاہدے پر جلد از جلد دستخط کا فیصلہ اور دستخط۔ ص: 96

۔ سانحۂ اوجڑی کیمپ حادثہ تھا یا سازش، جونیجو کا اس ضمن میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنا۔ ص: 98

:علاوہ ازیں، جونیجو کے کچھ اور اقدامات ’’اچھی حکمرانی‘‘ کی طرف حرکت کی حیثیت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً

۔ جونیجو کی یہ ہدایت کہ بےنظیر بھٹو کو بغیر کسی رکاوٹ کے مینارِ پاکستان آنے دیا جائے، اور حکومت ان کے استقبالی جلوس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ ص: 94

۔ جونیجو کا سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانا۔ ص: 94

جونیجو کے ان اقدامات سے ان کے تصورِ حکمرانی کے جو خطوط نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں، ان پر کبھی کسی فوجی یا منتخب سیاسی حکومت نے بھی کم ہی عمل کیا ہو گا۔

۔ منتخب سیاسی حکومت کی بالادستی۔

۔ حکومتی اخراجات میں کمی۔

۔ قواعد و ضوابط اور قانون کی حاکمیت۔

۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن پسندی کے تعلقات۔

۔ عسکری معاملات کے ضمن میں جواب دہی۔

۔ اہلیت اور لیاقت کی حاکمیت۔

۔ فیصلہ سازی کے ضمن میں حزبِ اختلاف کو حکومت کا حصہ سمجھنا۔

کتاب میں خاصی تعداد میں تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ اگر کتاب کو نہ پڑھا جائے، اور صرف ان تصاویر پر نظر ڈال لی جائے، تب بھی ’’ریاستی اشرافیہ‘‘ کے گھرانے کا تصور ذہن میں ضرور قائم ہو جاتا ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments