Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

نیا پاکستان ۔ ایک اور عظیم دھوکہ

سیاسی قضیے: 27 جولائی، 2018

نوٹ: یہ تحریر 26 دسمبر، 2011 کو لکھی گئی تھی۔ بعدازاں، اسی کی توضیح و تعبیر ایک کتاب، ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ و خم کا فلسفیانہ محاکمہ‘‘ بن گئی، اور جولائی 2012 میں شائع ہوئی۔ اس تحریر کا محرک، 30 اکتوبر، 2011 کو لاہور میں منعقد ہونے والا جلسہ تھا، جہاں سے تحریکِ انصاف کے عروج کا آغاز ہوا۔

تحریکِ انصاف کے مظہر کے بارے میں میری رائے آج بھی وہی ہے، جو اس وقت تھی۔

واضح رہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے میری کوئی دشمنی نہیں؛ اور دوستی بھی نہیں۔ میرا کام ان کا بے لاگ مطالعہ ہے؛ اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مطالعہ ان رجحانات کی نشان دہی پر مبنی ہوتا ہے، جن کا اظہار وہ سیاسی جماعت کرتی ہے۔ بعض اوقات کسی جماعت کے رجحانات بہت جلد تشکیل پا لیتے، اور منظرِعام پر آ جاتے ہیں۔ بعض اوقات پردہ اُٹھنے میں کافی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔

تحریکِ انصاف، جن رجحانات کا اظہار کر رہی تھی، مجھے ان کی نشاندہی میں دیر نہیں لگی۔ مذکورۂ بالا کتاب، اور پھر متعدد مضامین میں، میں ان کے بارے میں لکھتا رہا۔ اس وقت مجھے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر رفتہ رفتہ، میں نے جن رجحانات کی نشاندہی کی تھی، ان کی تصدیق ہوئی، اور وہ رجحانات، تحریکِ انصاف کی سیاست کی پہچان بن گئے۔ ان رجحانات میں پارسائی، فسطائیت اور تشدد نہایت نمایاں ہیں۔

بعد میں کچھ اور رجحانات نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ جیسے کہ قانون دشمنی، تاریخ دشمنی۔

یہاں، مجھ پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اب تو تحریکِ انصاف، انتخابات میں (’’مبینہ طور پر‘‘) پڑے پیمانے پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی ہے؛ اسے لوگوں کی طرف سے توثیق حاصل ہو گئی ہے؛ اب میرا کیا خیال ہے۔ میں یہ بات ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست‘‘ میں لکھ چکا ہوں کہ انتخابی کامیابی کسی چیز کی ضمانت نہیں بن سکتی۔

مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں کوئی جامد ہستی نہیں ہوتیں۔ وہ ارتقا سے گزرتی ہیں اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اب تحریکِ انصاف کا ارتقا کس سمت میں ہوتا ہے، یہ وقت بتائے گا؛ گو مجھے کچھ زیادہ امید نہیں کہ یہ ارتقا مثبت سمت میں ہو گا۔ بڑا سبب اس کا یہ ہے کہ جب کوئی فرد ایک درست کام کے لیے غلط ذرائع کا انتخاب کرتا ہے، تو ایک طرف وہ اپنی ساکھ اور اعتبار کھو دیتا ہے، تو دوسری طرف اس کی خوداعتمادی بھی جاتی رہتی ہے۔ تحریکِ انصاف نے بہت کھل کر اور بہت دیر تک یہی کچھ کیا۔

مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ  25جولائی کو انتخابات ہوئے، اور 26 جولائی کو صحافیوں اور دانش وروں نے یہ سمجھ لیا کہ تحریکِ انصاف ’’چوروں قطب‘‘ بن گئی۔ تھوڑا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک جماعت جو گذشتہ 17 برس سے زہر اُگل رہی تھی، ایک رات میں یہ معجزہ کیسے ہو جائے گا کہ اس کے منہہ سے پھول جھڑنے لگیں۔

ایک اور نہایت اہم حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ گذشتہ دہائی میں ایک سیاسی فسانہ یہ گھڑا گیا کہ جمہوریت کے مسائل کا حل مزید جمہوریت ہے۔ میں اس کا رد کرتا رہا ہوں۔ جمہوریت کے مسائل کا حل مزید جمہوریت نہیں، بلکہ آئین اور قانون کی بالادستی ہے۔

خوشی کی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ تیسری حکومت ہے، جو آئینی انداز میں تبدیل ہوئی ہے (گو کہ تحریکِ انصاف نے ہر گھڑی، ہر پل اپنا پورا زور لگایا کہ ایسا نہ ہو!)۔ مگر کیا آئین اور قانون کی حاکمیت کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی۔ قطعاً نہیں۔ بلکہ منتخب حکومت کی بالادستی کا جو مسئلہ ہے، وہ مزید پیچھے چلا گیا۔ اور یہی وہ پیمانہ ہے، جس سے پاکستان کے سیاسی ارتقا کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ یعنی منتخب حکومت کی ولادت ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہے، جہاں اس کی بےاختیاری، ممکنہ طور پر، اس کے گلے کا طوق بنی رہے گی۔

نیا پاکستان‘‘ ۔ ایک اور عظیم دھوکہ’’

پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ایک اور عظیم دھوکہ ہونے جا رہا ہے۔

پہلا عظیم دھوکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی صورت میں شروع ہوا تھا، اور ابھی تک جاری ہے۔ اور پاکستان کے شہریوں کی ایک معتدبہ تعداد ابھی تک اس دھوکے سے باہر نکلنے پر راضی نہیں۔

پیپلز پارٹی کی بنیاد 1967 میں رکھی گئی تھی۔ جو خواب اس وقت پاکستان کے شہریوں کو دکھائے گئے تھے، وہ آج تقریباً پینتالیس سال بعد بھی پورے نہیں ہوئے۔ پورے ہونے کی بات تو چھوڑیں، ان کا عشر ِعشیر بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔ ہاں، اس عرصے میں کیا ہوا، بہت سے مہم جو لیڈر بن گئے۔ نہ صرف لیڈر بن گئے، بلکہ پیسے والے اور صاحب ِحیثیت بھی۔ ان کے گھر بھرے گئے۔ کاروبار جم گئے۔ مگر پاکستان کے شہری وہیں کے وہیں ہیں۔ انھیں پارٹی اور اس کی حکومتوں نے کیا دینا تھا، انھیں با عزت طریقے سے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں مل سکا۔ ان کے ساتھ جو کچھ 1967 میں، اور اس سے پہلے ہو رہا تھا، وہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔

اب دوسرا دھوکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ وہی خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ ہو جائے گا۔ وہ ہو جائے گا۔ بس یہ کہا، وہ ہو گیا۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پل کے پل میں ٹھیک ہو جائے گا۔ کیسے ہو گا۔ کیونکر ہوگا۔ کچھ پتہ نہیں۔ دھوکہ دینے والوں کو بھی پتہ نہیں۔ دھوکہ کھانے والوں کو بھی پتہ نہیں۔ دھوکہ کھانے والوں کی تو جیسے نظر باندھ د ی گئی ہے۔ دکھانے والے جو دکھا رہے ہیں، وہ وہی دیکھ رہے ہیں۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا، کیسے ہو گا۔ کون کرے گا۔ کیسے کرے گا۔ کیونکر کرے گا۔

لوگ پھر سے وہی پرانا دھوکہ کھانے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ جوق در جوق تحریکِ انصاف کے جلسوں کی زینت بن رہے ہیں۔ کسی کی دکان سجا رہے ہیں۔ کسی کے خواب پورے کر رہے ہیں۔ بہت بھولے ہیں یہ لوگ۔ مجھے ان پر ترس نہیں آ رہا، بلکہ اس دن اور اس وقت سے ڈر لگ رہا ہے، جب یہ سب خواب چکنا چور ہو ں گے۔ پھر کیا ہوگا؟ جب اس ملک میں کروڑوں شیشے یک دم ٹوٹیں گے تو کتنی کرچیاں اور کہاں کہاں بکھریں گی۔ اور کون کون زخمی ہو گا۔ کب تک زخمی ہوتا رہے گا۔ یہ زخم کبھی بھریں گے بھی یا نہیں۔ کروڑوں شیشے ٹوٹنے کی صدائیں کہاں کہاں تک بازگشت پیدا کریں گی۔ کتنے کانوں کے پردوں کو پھاڑیں گی۔ کتنے کلیجے چیریں گی۔ بہت خوفناک منظر ہو گا۔ موت کے منظر سے بھی خوفناک منظر۔ لیکن کوئی بھی تیار نہیں، یہ منظر سوچنے کے لیے۔ یہ منظر تخئیل میں دیکھنے کے لیے۔

میری یہ باتیں کون سنے گا، بلکہ مجھے کوسا جائے گا۔ ہدف بنایا جائے گا۔ بس ایک دھن سوار ہے۔ جیسے ایک نوجوان کہیں محبت کر بیٹھتا ہے اور شادی کرنے پر اتارو ہے۔ اسے لاکھ سمجھائیں، وہ نہیں مانے گا۔ وہ اپنی ضد پوری کر کے رہے گا۔ یا اپنی ضد ’’ویاہ‘‘ کر رہے گا۔ کرلینے دیں، اسے اپنی ضد پوری۔ ویاہ لینے دیں، اسے اپنی ضد۔ دیکھیں ہنی مون کتنے دن کا ہوتا ہے۔ پر ابھی تو تاریخ بھی نہیں ملی ہے۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔

آخری الفاظ یہ کہنا چاہوں گا کہ پہلا عظیم دھوکہ ایک ”عوامیتی فاشزم“ (پاپولِسٹ فاشزم) کی صورت میں آج تک بھگتا جا رہا ہے۔ یہ دوسرا عظیم دھوکہ جس کا منہ متھا ’’لبرل فاشزم‘‘ سے ملتا جلتا لگ رہا ہے، دیکھیں کب تک بھگتنا پڑے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Dr Tahir
Dr Tahir
5 years ago

آخری الفاظ یہ کہنا چاہوں گا کہ پہلا عظیم دھوکہ ایک ”عوامیتی فاشزم“ (پاپولِسٹ فاشزم) کی صورت میں آج تک بھگتا جا رہا ہے۔ یہ دوسرا عظیم دھوکہ جس کا منہ متھا ’’لبرل فاشزم‘‘ سے ملتا جلتا لگ رہا ہے، دیکھیں کب تک بھگتنا پڑے

Dr khalil
I think wy ever you are looking ….
Political happenings ….
Types of facism u are commenting …

all called dilects ….
History never remains constant
Wt types of change u want to see

Its not clear????
Wt u are defining populist facism ….???