بایاں بازو ـ کچھ نہیں بدلا، کچھ بھی نہیں بدلا

کل گیارہ فروری کو ایک تقریب تھی، معراج محمد خان کی یاد میں ایک ریفرینس۔ مال روڈ پر، الحمرا ہال تین میں۔ ہال ’’ہاؤس فل‘‘ تھا۔ یہ ہیں کچھ اہم اور نمایاں نکات۔ صاف بات ہے کہ یہ میرے نقطۂ نظر سے اہم اور نمایاں ہیں۔
چونکہ بائیں بازو سے میرا بہت گہرا تعلق رہا ہے، لہذا، میں ایسے اجتماعات میں جانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک مقصد یہ جاننا بھی ہوتا ہے کہ اب بایاں بازو کہاں کھڑا ہے۔ گذشتہ تقریب جس میں مجھے جانے کا موقع ملا، وہ سترہ اپریل 2015 کو منعقد ہوئی تھی، اور یہ ڈاکٹرلال خان کی کتاب، ’’چین کدھر؟‘‘ کی رونمائی تھی، جس کے بارے میں یہ بلاگ پوسٹ دیکھی جا سکتی ہے: ’’چین کدھر؟ یا پاکستان کا بایاں بازو کدھر؟‘‘ 
’’عظیم انقلابی اور مزاحمتی سیاست کا میرِ لشکر: معراج محمد خان‘‘۔ یہ کتاب فکشن بُک ہاؤس نے شائع کی ہے۔ کتاب کے مرتب، ارشد

لاہور کا نوحہ

لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

[نئے شہر بساؤ اوراپنے شوق پورے کرو؛ ہمارے شہر کیوں ملیامیٹ کر رہے ہو!]

روتی ہوئی حسرت دلِ مغموم سے نکلے
واویلا کرو، بین کرو، اشک بہاؤ
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے
اشراف کے خوابوں تلے کچلا گیا یہ شہر
صیاد کے ہتھکنڈوں سے مسلا گیا یہ شہر
آواز کہیں تو کسی حلقوم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے
جو روح تھی مر بھی چکی، اربابِ سیاست!
لاشہ بہا لے جائے گا سیلابِ سیاست
اس شہر کا قصہ دلِ مغموم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذراد ھوم سے نکلے
کتنی ہی عمارات جو پہچان تھیں اس کی
کوچے و گزرگاہیں جو کہ جان تھیں اس کی
نوحہ تو کسی کا لبِ مظلوم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے
وہ پیڑ، وہ برگد، وہ گھنے سیر کے رستے
منزل سے کہیں

چین کدھر؟ یا پاکستان کا بایاں بازو کدھر؟

کل 17 اپریل کو میں ریاض صاحب سے ملنے گیا۔ ریاظ ، مصورہیں اور بیشترعلمی و ادبی کتابوں کے سرورق کھینچتے ہیں۔ وہ کہنے لگے، الحمرا (مال روڈ،لاہور) میں ڈاکٹر لال خان کی کتاب کی رونمائی کی تقریب ہے، اگرآپ نہیں چاہتے تو نہیں جاتے؛ورنہ چلتے ہیں۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں، چلتے ہیں۔ یہ تقریب الحمراہال تین میں تھی۔ ہم کوئی آدھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے۔ تقریب کا آغاز ہو چکا تھا، اور جو صاحب سٹیج سنبھالے ہوئے تھے، جن کا نام بعد میں پتہ چلا آفتاب ہے، وہ کچھ کلمات ادا کر رہے تھے۔ انھوں نے کسی کو مدعوکیا، اورانھوں نے کسی اور کی ایک انقلابی نظم پڑھی۔

ایک بات جومجھے فوراً محسوس ہوئی، یہ تھی کہ بیٹھے ہوئے کوئی پچاس ساٹھ کے قریب، حاضرین کو بھی کامریڈ سمجھا اور کامریڈ کہہ کر مخاطب کیا جا رہا

اشراف اور عوام کی تقسیم

الفاظ ہم خود بناتے، گھڑتے اور تراشتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ جواباً الفاظ بھی ہمیں بناتے، تراشتے اور بگاڑتے ہیں۔ جیسے ایک شعر میں بیان ہوا ہے: کھلتا کسی پہ کاہے کو دل کا معاملہ / شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ اور جیسے شاعر چاؤسر کا کہنا تھا:حکم نہ لگاؤ، کہیں تم پر حکم نہ لگ جائے۔ اسی طرح، الفاظ ہماری نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے عکاس ہوتے ہیں۔ یہ ہماری چغلی کھاتے ہیں۔ یہ ہمارے احساسات اور خیالات کو بے نقاب کرتے ہیں۔ الفاظ، ہماری دنیا اور ہماری زندگی کو بیان کرتے ہیں۔ یہ ہمیں زبان دیتے ہیں، یا یوں سمجھ لیجیے یہ ہماری زبان کو بولنا سکھاتے ہیں۔ الفاظ کے اندر تہذیب اور ثقافت کی تاریخ سموئی ہوتی ہے۔ یہ طرزِفکراور طرزِ حیات کی مٹھاس اور کڑواہٹ دونوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ زندگی دیتے بھی ہیں، اورزندگی لے بھی لیتے

سقراط پر ایک غیر سقراطی کتاب

سقراط
ازعائشہ اشفاق نور
الحمد پبلی کیشنز، لاہور، 2014

مختصر جائزہ :

[نوٹ: عائشہ اشفاق نور کی کتاب ’’سقراط‘‘ کا یہ جائزہ جون 14 کو لاہور میں جدت ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز کے تحت منعقدہ کتاب کی تقریبِ پذیرائی میں پڑھا گیا۔]

اس مختصر جائزے میں کچھ نکات اور معاملات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

1۔ سقراط ان یونانی فلاسفہ میں سے ہے، جو جس فلسفے پر یقین رکھتے تھے، اپنی زندگی بھی اسی کے مطابق گزارتے تھے۔ اس مفہوم میں یہ کتاب ”عظیم یونانی فلسفی کی داستانِ حیات“ سے بڑھ کر ”سقراط کی داستانِ فکروحیات“ ہے۔ یعنی سقراط کی حیات کا بیان، اس کی فکر کے بیان سے جدا نہیں۔

2۔ اردو میں سقراط پر جامع کتب غالباً دستیاب نہیں۔ ایک کتاب کا ذکر خود مصنفہ نے بھی کیا ہے، وہ ہے سقراط پر ڈاکٹر منصورالحمید کی کتاب ”سقراط“، جس سے انھوں نے استفادہ بھی کیا ہے۔ مجھے

زندگی بھر کا عذاب: ایک بد تمیز اور بدمعاش ریاست کے ساتھ

یہ پوسٹ ایک گذشتہ پوسٹ سے جڑی ہوئی ہے، جس میں اسی موضوع پر خامہ فرسائی کی گئی تھی اور پنجاب حکومت کا ایک اشتہار ثبوت کے طور پر منسلک کیا گیا تھا۔
ایک اور اشتہار ملاحظہ کیجیے۔ اس میں ریاست کی بدتمیزی اور بدمعاشی کا مزید ثبوت مہیا کیا گیا ہے۔
مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب کسی عام شہری کا سابقہ کسی سرکاری افسر یا منتخب نمائندے سے پڑتا ہے، اور اس کا جو رعونت آمیز رویہ سامنے آتا ہے، وہ اسی بدتمیزی اور بدمعاشی سے عبارت ہوتا ہے۔ 
ہم سب بے چارے عام شہری بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست ہمارے ساتھ کس طرح پیش آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دورِ غلامی میں آقا بھی اپنے غلاموں کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتے ہوں گے۔ 
[روزنامہ جنگ لاہور، 31 مئی، 2014]

سویڈن میں سول پاکستان کی تلاش

سول پاکستان کی تلاش میں اک پاکستانی کس طرح سویڈن میں جا بستا ہے۔
جبکہ بیٹرا تو یہ اٹھانا پڑے گا کہ موجودہ پاکستان کو سول پاکستان کیسے بنایا جائے۔ 
عطاالحق قاسمی کا درجِ ذیل کالم روزنامہ جنگ 24 اپریل میں کو شائع ہوا۔  

ریاستی اشرافیہ پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے!

رضا علی عابدی بہت دھیمے انداز میں بات کہتے ہیں۔ دیکھیے انھوں نے پاکستان کی ریاستی اشرافیہ کی کارگزاریوں کو کیسے بیان کیا ہے۔ پڑھیے اور روئیے:
[روزنامہ جنگ لاہور، 11 اپریل، 2014]
[روزنامہ جنگ لاہور، 18 اپریل، 2014]

مفت خورے اشراف

ریاستی اشرافیہ کی ہوس ماند پڑنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ ریاست کو لوٹنے سے باز نہیں آتے۔ اور تب تک لوٹنے سے باز نہیں آ سکتے جب تک قوانین سازی اور ضابطہ سازی پر ان کا کنٹرول باقی ہے۔
دیکھیے ریاستی اشرافیہ کی یہ کھیپ کس طرح مراعات کے لے تڑپ رہی ہے:
[The News Lahore, April 15, 2015]
[روزنامہ جنگ لاہور، 15 اپریل، 2014] 

پاکستان: ایک بدتمیز اور بدمعاش ریاست

پاکستان میں جسے سرکاری نوکری اور ساتھ کچھ تھوڑا بہت سرکاری یعنی ریاستی اختیار مل جاتا ہے، وہ بے چارہ احساسِ کہتری اور کمتری کا مارا فوراً انسان کے درجے سے بلند ہو کر خدا بن بیٹھتا ہے۔ بیوروکریسی یوں ہی افسرشاہی بنتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں کسی کو پبلک ٹائلیٹ کے باہر نگرانی پر بٹھا دیں، وہ فوراً بیوروکریٹ بن جائے گا۔
سرکاری یا ریاستی اختیار ان کا دماغ ہی خراب نہیں کرتا، ان کی زبان کو بھی خراب کر دیتا ہے۔
ذیل میں نقل کیا جانے والا سرکاری اشتہار دیکھیے، اس کی زبان ملاحظہ کیجیے، اور پاکستان کی ریاست کی بدزبانی اور بدمعاشی کا ادراک کیجیے:
[اس اشتہار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں قانون کی حکومت کہاں کھڑی ہے، اور قانون کن بدزبانوں اور بدمعاشوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی

اُلجھے ہوئے کالم نگار اور رعونت زدہ انائیں

ذیل میں دو کالم نقل  ہیں۔ دیکھیے بڑے بڑے کالم نگار کن معاملات میں الجھے ہوئے ہیں؛ ان کی دلچسپیاں کیا ہیں؛ ان کی انا کیسی رعونت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ میں عام طور انھیں نہیں پڑھتا، مگر بعض اوقات سرسری نظر ڈال لیتا ہوں؛ بالخصوص جب کالم کا عنوان ’’پُرکشش‘‘ ہو۔ 
پہلا کالم رؤف طاہر کا ہے۔ یہ روزنامہ جنگ میں 8 مارچ کو شائع ہوا۔
اس کے جواب میں سلیم صافی کا کالم روزنامہ جنگ میں 11 مارچ کو شائع ہوا۔ اس کالم کو نہلے پہ دہلا کہنے میں کوئی ہرج نہیں!

فنا فی الطالبان

چند خبریں ملاحظہ کیجیے، اور سوچیے طالبان اور طالبان نواز افراد اور جماعتوں میں کیا فرق ہے۔
میری رائے میں طالبان تو بزور پاکستان کی ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اور طالبان نواز بے چارے اس انتظار میں ہیں کہ طالبان کب پاکستان کی ریاست پر قبضہ کرتے ہیں اور کب یہ قبضہ انھیں منتقل کرتے ہیں۔
یہ ہیں وہ خبریں، جو محض چشم کشا ہی نہیں، ’’عقل فنا‘‘ کا مظہر بھی ہیں:
[روزنامہ جنگ 9 مارچ، 2014] 
[روزنامہ جنگ 9 مارچ، 2014]
[روزنامہ جنگ 11 مارچ، 2014]

’’طالبان کی اصلیت‘‘

گذشتہ روز ’’جنگ‘‘ میں شاہین صہبائی کا کالم، ’’طالبان کی اصلیت‘‘ شائع ہوا۔ آپ بھی پڑھیے اور طالبان کا ذکر تو علاحدہ ہے، طالبان کے ہمدردوں اور حامیوں کے بارے میں سوچیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، اور کس برتے پر طالبان کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ طالبان کے حامیوں میں اب جماعتِ اسلامی بازی لے گئی ہے، اور عمران خان اور تحریکِ انصاف پیچھے رہ گئی ہے۔ دیکھیں طالبان کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے، کیا جماعتِ اسلامی کا مقدر اس سے متاثر ہو گا یا ںہیں!
[روزنامہ جنگ، 24 فروری، 2014] 

خود مختار پارلیمان کی بالادستی بالآخر قائم ہو گئی!

یہ پوسٹ ایک گذشتہ پوسٹ، ’’پارلیمانی بالادستی کا ڈھونگ ـ ایک تازہ مثال‘‘ سے جڑی ہوئی ہے۔
اصل میں چیئرمین سینیٹ ایران کے دورے پر چلے گئے، اور یوں پارلیمان کی بالادستی قائم ہو گئی۔
پارلیمان کی بالادستی کی تصویر دیکھیے۔ کتنی زبردست تصویر ہے، کتنے شاندار سوٹ میں ملبوس ہے پارلیمان کی بالادستی:
یہ تصویر 20 فروری کے بزنیس ریکارڈر میں بھی چھپی ہے، اور سینیٹ کی ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہے۔

میری نئی اردو کتاب، ’’پاکستانی کشاکش‘‘ کی اشاعت اور اجرا

میری نئی اردو کتاب، ’’پاکستانی کشاکش‘‘ شائع ہو گئی اور اے ـ ایس ـ انسٹیٹیوٹ، لاہور نے آج اس کا اجرا کر دیا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا ریلیز ملاحظہ کیجیے:

میڈیا ریلیز:

نئی اردو کتاب، ’’پاکستانی کشاکش‘‘ کی اشاعت اور اجرا

لاہور، فروری 22، 2014: آلٹرنیٹ سالوشنز انسٹیٹیوٹ (اے ـ ایس ـ انسٹیٹوٹ) نے آج ڈاکٹر خلیل احمد کی نئی کتاب، ’’پاکستانی کشاکش: تحلیل و تعدیل اور آگے بڑھنے کاراستہ‘‘ کا اجرا کر دیا ہے۔

کتاب پاکستانی ریاست اور سوسائیٹی کے موجودہ بحران کا تجزیہ بالخصوص اس تناظر میں کرتی ہے کہ پاکستانی ریاست اور سوسائیٹی دونوں نے پاکستان کے عام شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کو لاحق وحشیانہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے ضمن میں کیا رویہ اختیار کیا ہے۔ کتاب سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے مشکوک کردار پر بھی توجہ دیتی ہے کہ انھوں نے اپنی

پارلیمانی بالادستی کا ڈھونگ ـ ایک تازہ مثال

روزانہ اخبار دیکھتے ہوئے درجنوں ایسے معاملات نظر سے گزرتے ہیں، جن کی نشاندہی کرنے کو جی چاہتا ہے؛ جن پر لکھنے اور ان کے پیچھے چھپی کہانیوں کو بے نقاب کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اور پاکستان کی ریاستی اشرافیہ اور طفیلیے سیاست دان، جو گل کھلاتے رہتے ہیں، ان پر خانہ فرسائی ضروری خیال کرتا ہوں۔ مگر اور بہت سے اہم اور ضروری معاملات توجہ چاہتے ہیں، اور میں ان پر مرتکز رہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ ان روزانہ کی گل فشانیوں سے قطع نظر کر کے کچھ قابلِ قدر کام کروں۔

یوں بہت کچھ ایسا ہے، جسے کڑے دل کے ساتھ، اس پر بغیر کچھ کہے، بغیر کچھ لکھے، چھوڑنا پڑتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات ایسا کچھ سامنے آ جاتا ہے کہ صبر نہیں ہوتا، اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
آج ایسا ہی ایک معاملہ درپیش ہے۔

درج ذیل خبر ملاحظہ کیجیے،

ایک بم ہزار غم

روسی ادیب چیخوف نے افسانے کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر اس میں بندوق کا ذکر آیا ہے تواس سے پہلے کہ افسانہ ختم ہو اس کا چل جانا ضروری ہے۔ پاکستان نے جب سے ایٹم بم بنائے ہیں، تب سے چیخوف کے کچھ پاکستانی پیروکاروں کا مسلسل کہنا ہے کہ اگر انھیں چلانا نہیں تو بنایا کیوں۔

یاد پڑتا ہے کہ واپڈا کے ایک ریٹائرڈ چیئر مین ریٹائرڈ جنرل تھے، وہ کہتے تھے کہ یہ بم کیوں بنا رکھے ہیں ماریں انھیں انڈیا پر۔ وہ کچھ تعداد بھی بتاتے تھے کہ کتنے بم بھارت کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ (انھوں نے اغلباً یہ بھی اندازہ ضرور لگایا ہو گا کہ پاکستان کے لیے کتنے بم کافی ہوں گے اور انھیں یہ اطلاع بھی ہو گی کہ بھارت کے پاس اس سے کہیں کم بم موجود ہیں، جو پاکستان کے لیے کافی ہوںگے!)

سندھ اسیمبلی میں شادی خانہ آبادی

ویسے تو پاکستان کی قومی اور صوبائی اسیمبلیوں سے عام شہریوں کے لیے بربادی کے پروانے جاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مرتبہ ایک مختلف خبر آئی ہے۔ پہلے جو خاص پاکستانی منتخب ہو کر قومی اسیمبلی میں پہنچ جاتے تھے، ان کے گھر شادیانے بجنے لگتے تھے، اب تو خود اسیمبلی میں ڈھول ڈھمکا شروع ہو گیا ہے۔ منتظر رہیے کس اسیمبلی میں ناچ گانے کی تقریب کب منعقد ہوتی ہے:

[روزنامہ جنگ، 4 نومبر، 2013]

پاکستان کے طاقت ور قیدی اور کمزور پولیس افسر

یہ خبر ملاحظہ کیجیے اور حیران ہوئیے کہ ایک قیدی نے کیسے ایک پولیس افسر کو تبدیل کروا دیا۔ یہی سبب ہے کہ میں پاکستان کو ایک جرائم پیشہ ریاست کہتا ہوں:

[روزنامہ جنگ، 29 ستمبر، 2013]