نواز شریف کو لوگوں سے معافی تو لازماً مانگنی چاہیے

نواز شریف آج جن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ ماضی میں ان کے ساتھ ساز باز کرتے رہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ملوث بھی رہے ہیں۔

لیکن اس چیز سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ دنیا بھر میں سمجھا جاتا ہے، یہی طاقتیں پاکستان میں نہ صرف بیشتر حکومتیں بنانے اور ہٹانے کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں، بلکہ اِس یا اُس سیاسی جماعت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے بھی برسرِ پیکار رہتی ہیں، تو ایسے میں کوئی سیاسی جماعت اگر اپنی بقا کے لیے پیچھے ہٹتی ہے، اور ان طاقتوں کے ساتھ مصالحت کرتی ہے، تو اس کے لیے اتنی گنجائش نکالنا مناسب ہو گا۔ لیکن اس سے زیادہ قطعاً نہیں۔

مثلاً غالباً ذوالفقارعلی بھٹو کو موقع نہیں ملا، ورنہ وہ بھی جلاوطن ہو سکتے تھے، اور اپنی جان بچا سکتے تھے۔

مثلاً نواز شریف جینرل مشرف کے …

بایاں بازو بھی تحریکِ انصاف کی طرح فسطائی (فاشسٹ) ثابت ہو گا

آج کل یوں معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے بائیں بازو کی سیاست کا احیا ہو رہا ہے۔ منظور پشتین کی گرفتاری پر مختلف شہروں اور خاص طور پر اسلام آباد میں جو احتجاج ہوئے، بائیں بازو کی جماعت، عوامی ورکرز پارٹی، نے اس میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئیں، ان میں ’’پشتون تحفظ موومینٹ‘‘ (پی ٹی ایم) کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے کارکن بھی شامل ہیں۔

اس سے قبل جب اپریل 2018 میں پی ٹی ایم نے لاہور میں جلسہ کیا۔ اس وقت بھی عوامی ورکرز پارٹی نے اس کی ’’کچھ نہ کچھ‘‘ میزبانی کی تھی۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ عوامی ورکرز پارٹی، جو کہ سوشل ازم (اشتراکیت) کی دعویدار ہے، وہ پی ٹی ایم کے ساتھ کیونکر متحد ہو سکتی ہے۔ سوشل ازم (اشتراکیت) میں تو حقوق کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ پی ٹی مجسم …

بےنظیر بھٹو کا فسانہ

نوٹ: یہ تحریر 31 دسمبر 2019 کو https://nayadaur.tv پر شائع ہوئی۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب بے نظیر بھٹو دسمبر 1988 میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم اور پہلی بار وزیرِ اعظم بنیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے پاکستان کی دنیا بدل جائے گی۔ پاکستان کے عام لوگوں کے دلدر دورہو جائیں گے۔ بہت کچھ بدل جائے گا۔

پھریوں ہوا کہ ابھی چھ سات ماہ گزرے تھے کہ انھوں نے جون 1989 میں امریکہ کا سرکاری دورہ کیا، اور امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ خطاب پاکستان میں بھی نشر کیا گیا۔ میں نے بھی بڑے شوق اور فخر سے سنا۔ مگر یہی وہ خطاب تھا، جسے سن کر ان پر سے میرا اعتبار اٹھنے لگا۔ ایک دراڑ پڑ گئی تھی۔

بے نظیر نے خطاب کے دوران امریکی نمائندگان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’میرے دوستو، یہی وقت ہے پاکستان میں معجزات برپا کرنے …

اگر انتخابات منصفانہ نہیں، تو آپ اسیمبلیوں میں کیوں بیٹھے؟

سیاسی قضیے: 29  دسمبر، 2018

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب تحریکِ انصاف ’’دھاندلی دھاندلی‘‘ کھیل رہی تھی، یا اس کے پردے میں کچھ اور۔ اسی پس منظر میں آصف علی زرداری کا ایک بیان پڑھنے کو ملا۔ انھوں نے فرمایا: ’’ہمارا مینڈیٹ تو ہر دفعہ چوری ہوتا ہے۔‘‘

وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے: آیا یہ کہ ان کی جماعت کے ساتھ ہر انتخاب میں دھاندلی ہوتی ہے۔ یا یہ کہ ہر انتخابی مینڈیٹ، ہمیشہ کے لیے ان کی جماعت کے نام لکھ دیا گیا ہے، اور یہ ان کی جماعت کو ہی ملنا چاہیے۔ اور اگر ان کی جماعت کو نہیں ملتا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جماعت کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے۔

پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں، کم و بیش، اسی اندازِ فکر کی حامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اندازِ فکر فسطائی رجحان کا غماز بھی ہے۔

ہاں، ایک …

!میں‌ خود سے شرمندہ ہوں

سیاسی قضیے: یکم جولائی، 2018

میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا، جو سراسر بے مایہ تھا۔

تربیت، دیانت داری کے چلن پر ہوئی۔ کسی کو برا نہیں کہنا۔ کسی کو دھوکہ نہیں دینا۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا۔

یہ اخلاقی باتیں اچھی بھی لگیں۔ کوشش کی زندگی ان کے مطابق گزاروں۔

وہ دنیا ایک عجیب دنیا تھی، بھَری پُری۔ دلچسپیاں ہی دلچسپیاں، اطمینان ہی اطمینان۔ کوئی محرومی نہیں۔

پھر شعور نے آنکھ کھولی۔ اپنی چھوٹی سی دنیا سے باہر نکلا۔ بہت کچھ دیکھا اور سمجھا۔

پہلا فکری سانچہ، جس کی تعلیم ان دنوں میسر تھی اور جو مجھے بھی منتقل ہوئی، اس کی صورت گری ’’سوشلزم‘‘ سے ہوئی تھی۔

اب محرومیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ ہر محرومی، استحصال کا نتیجہ تھی۔

مگر میں رکنے والا نہیں تھا۔ سوشلسٹ سے آگے بڑھ کر، مارکس پسند بن گیا۔

پھر تعلیم ختم ہوتے ہوتے، یہ سب کچھ ہوَا ہو گیا، …

نیا پاکستان ۔ ایک اور عظیم دھوکہ

سیاسی قضیے: 27 جولائی، 2018

نوٹ: یہ تحریر 26 دسمبر، 2011 کو لکھی گئی تھی۔ بعدازاں، اسی کی توضیح و تعبیر ایک کتاب، ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ و خم کا فلسفیانہ محاکمہ‘‘ بن گئی، اور جولائی 2012 میں شائع ہوئی۔ اس تحریر کا محرک، 30 اکتوبر، 2011 کو لاہور میں منعقد ہونے والا جلسہ تھا، جہاں سے تحریکِ انصاف کے عروج کا آغاز ہوا۔

تحریکِ انصاف کے مظہر کے بارے میں میری رائے آج بھی وہی ہے، جو اس وقت تھی۔

واضح رہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے میری کوئی دشمنی نہیں؛ اور دوستی بھی نہیں۔ میرا کام ان کا بے لاگ مطالعہ ہے؛ اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مطالعہ ان رجحانات کی نشان دہی پر مبنی ہوتا ہے، جن کا اظہار وہ سیاسی جماعت کرتی ہے۔ بعض اوقات کسی جماعت کے رجحانات بہت جلد تشکیل پا لیتے، اور منظرِعام پر …

ڈان‘‘ اور سیاست دان اور عام لوگ’’

[سیاسی قضیے: [5 جولائی، 2018

ویسے تو انگریزی اخبار، ’’ڈان‘‘ اشتراکیت اور اشتراکیوں کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، جو اپنے مقصد حصول کے لیے طاقت اور تشدد کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں۔ مگر لیاری میں ووٹروں نے پیپلز پارٹی کے ’’کراؤن پرنس‘‘، بلاول بھٹو زرداری کا جس طرح استقبال کیا، ’’ڈان‘‘ کو یہ انداز اچھا نہیں لگا۔ ’’ڈان‘‘ نے اس پر جو اداریہ لکھا، اس کا عنوان ہی معنی خیز ہے: سیاست دانوں کو شرم دلانا [3 جولائی، 2018]۔

اداریہ پڑھ کر اس عنوان کا مطلب یہ بنتا ہے کہ لیاری کے ووٹروں کا سیاست دانوں کو اس انداز میں شرم دلانا درست نہیں۔ ’’ڈان‘‘ کی رائے یہ ہے کہ ووٹروں کو سیاست دانوں کی نااہلی پر اپنا ردِعمل ووٹ کی صورت میں ظاہر کرنا چاہیے۔

ڈان کے مطابق یہ رجحان تکلیف دہ ہے۔ ناخوش ووٹروں نے متعدد انتخابی امیدواروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، اور یوں ممتاز …

پاکستان مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کا بائیکاٹ کرنا ہو گا

سیاسی قضیے: یکم جولائی، 2018

پاکستان مسلم لیگ ن کیا کرنا چاہ رہی ہے، غالبا اسے بھی خبر نہیں۔ یہ کس سمت میں جانا چاہ رہی ہے، کچھ واضح نہیں۔

ہاں، اتنا تو صاف ہے کہ یہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اسے یہ گمان ہے کہ یہ انتخابات جیت جائے گی، کم از کم پنجاب میں سو سے زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک دائرے کے اندر رہ کر لڑے گی، اس سے باہر نکل کرنہیں۔

لیکن جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں، یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی جا رہی ہے کہ ن لیگ کو پنجاب میں اکثریتی جماعت نہیں بننے دیا جائے گا۔ اگر ایک جانب، ن لیگ کے راستے میں ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، تو دوسری طرف، پاکستان تحریکِ انصاف کے راستے کی ہر …

اشرافیہ کی سیاست اور ’’پشتون تحفظ موومینٹ‘‘ کی سیاست

سیاسی قضیے: 15اپریل، 2018

اشرافیہ کی سیاست، بخشنے، عطا کرنے،  دینے اور دان کرنے سے عبارت ہے۔

جیسے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ۔

یا پھر بلا تعطل بجلی کی فراہمی۔ یا جیسے کہ سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، وغیرہ۔

اور ایسی ہی دوسری چیزیں، جو وقت اور موقعے کی مناسبت سے اشرافی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ بنتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ یہ چیزیں لوگوں کو اپنے پیسے سے مہیا کرتے ہیں۔

اس کا صاف جواب ہے: قطعاً نہیں۔

خواہ یہ روٹی، کپڑا اور مکان ہو، یا بجلی، یا کوئی اور چیز۔ یہ تمام چیزیں لوگوں کو قیمتاً مہیا کی جاتی ہیں۔ اور نجی کاروباروں کی نسبت کہیں زیادہ مہنگی قیمت پر۔ اگر کوئی چیز کبھی ’’مفت‘‘ کہہ کر مہیا کی جاتی ہے، تو اس کی قیمت بھی لوگوں سے ٹیکس کی صورت میں وصول کی جا رہی ہوتی ہے۔…

Bridging The Communication Gap With PPP!

With time, disconnect with the Pakistan Peoples Party is widening. The more one listens to news and reads newspapers, the more one is convinced of the distending communication gap between the PPP and non-PPP camps. It seems both of them are talking to themselves only. Watching talk shows on TV channels, where representatives from both camps talk face to face, is an experience these days as they appear to be an exercise in monologic dialogue, without communicating a bit!
No doubt, both camps are talking quite heavily meaningfully. When Khawaja Saad Rafique, or anyone from the Pakistan Muslim League (N), says the PP is using all its energies in defending the President Asif Ali Zaradri against his Swiss money laundering cases, when Fauzia Wahab or anyone from the PP says media is targeting President Zardari, and when Qamar Zaman Kaira says the PP is always a victim of anti-people forces,

Siege from within

When creative spirit of a nation is arrested from within, it is as vulnerable to external insinuations as is to internal machinations, and can never make any progress.
“Pakistan is under siege.”

We had enemies from the very first day. With time, the list of our enemies grew longer. So much so that today we have neighbors not friendly to us and a world all hostile to us. We are alone in a wilderness created of our own. Isn’t it Greek mythology whose gods and monsters we have resurrected in ourselves? Like the one-eyed monster, we have no second eye to look inward. This on the one hand has transformed us completely into subjects perfectly suitable for psychological pursuits. Or, for instance, how can a judge of a higher court find fault with bare feet of a dancer, and ban it? Or

Siege from within

When creative spirit of a nation is arrested from within, it is as vulnerable to external insinuations as is to internal machinations, and can never make any progress.
“Pakistan is under siege.”

We had enemies from the very first day. With time, the list of our enemies grew longer. So much so that today we have neighbors not friendly to us and a world all hostile to us. We are alone in a wilderness created of our own. Isn’t it Greek mythology whose gods and monsters we have resurrected in ourselves? Like the one-eyed monster, we have no second eye to look inward. This on the one hand has transformed us completely into subjects perfectly suitable for psychological pursuits. Or, for instance, how can a judge of a higher court find fault with bare feet of a dancer, and ban it? Or

Siege from within


When creative spirit of a nation is arrested from within, it is as vulnerable to external insinuations as is to internal machinations, and can never make any progress.
“Pakistan is under siege.”

We had enemies from the very first day. With time, the list of our enemies grew longer. So much so that today we have neighbors not friendly to us and a world all hostile to us. We are alone in a wilderness created of our own. Isn’t it Greek mythology whose gods and monsters we have resurrected in ourselves? Like the one-eyed monster, we have no second eye to look inward. This on the one hand has transformed us completely into subjects perfectly suitable for psychological pursuits. Or, for instance, how can a judge of a higher court find fault with bare feet of a dancer, and ban it? Or

Forsaken by the State

Note: The day Benazir Bhutto was murdered, December 27, 2007, it was the day when all the semblance of government evaporated in Pakistan; there was widespread anarchy and uncertainty; there was arson, loot, and destruction. Fear prevailed. As if the life and property of ordinary citizens of this country were forsaken by the State! Here is the Story:

Where there is no property there is no injustice.
John Locke
Regardless of the controversy whether we human beings are by nature good or bad, what is crucially required to keep our society intact is that we must be treated as free agents. This washes away all those excuses the science of psychology and its Freuds and no-Freuds have heaped on and which provide an eternal alibi for the criminals to prove their innocence under the guise of this or that mental state or illness, or this or that instinctual impulse which,

Crimes and the political alibi

“I am a politician; I cannot commit any crime; I am perfectly innocent!”
That is how, as we know at least in Pakistan, politicians argue. That manner of political self-defense clears the two-way traffic: criminals may become politicians; and, politicians may become criminals. Pakistanis have enough of both. And the breed is multiplying like rabbits. All the more, species belonging to other realms of social, economic, military, cultural, religious have started aping the politicians. They have learned the art of politics from them. That’s a hundred percent fool-proof method of overcoming any odds.
Also, that has rendered all the systems of accountability inefficacious. Why? Because, and it is awfully baffling that, all the systems of accountability are conceived, detailed and legislated by the criminal politicians or political criminals. Who can forget the National Reconciliation Ordinance (NRO)? And it is these politicians, tainted with criminality, who appoint the heads to these

Bilawal – a political crown prince

History is replete with stories of off-springs used in order to seize and wield power. One such story has been narrated by Abdul Haleem Sharar in his excellent Urdu book, “Guzishta Lucknow” (Lucknow of the past). In its chapter on “Jang-e-Azadi aur Lucknow” (War of Independence and Lucknow), he writes: “The King, Wajid Ali Shah himself was in Calcutta, his family was in London, and . . . the conflict over the cartridges and government’s insistence suddenly caused a mutiny and from Merrut to Bengal such revolt flared up that the homes of every friend and foe were burnt and such a strife broke out that the foundations of British government in India appeared to be shaking.
“The way rebels of Merrut etc came to be converged in Delhi and made Zafar Shah Emperor of India, likewise the rebels of Allahabad and