سیاست کے سینے میں آئین کیوں نہیں دھڑکتا؟

سیاسی قضیے: منگل 6 مارچ، 2018

چند برس قبل، میں نے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کی مختلف دستاویزات دوبارہ دیکھنی شروع کیں، جن میں ان کی طرف سے شائع ہونے والے تجزیات، رپورٹیں، سالانہ جائزے، وغیرہ، شامل تھے۔ یہ چیزیں میرے پاس پہلے سے دستیاب تھیں، کیونکہ میں خود بائیں بازو سے وابستہ رہا تھا۔

ان دستاویزات کے مطالعے کے دوران، جس چیز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ’’آئین‘‘ کے ذکر کا مفقود ہونا تھا۔ ان میں قریب قریب تمام دستاویزات 1973 کے بعد سے تعلق رکھتی تھیں، مگر ان کے پس منظر میں ’’آئین‘‘ کہیں موجود نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، پاکستان سوشلسٹ پارٹی، یا مزدور کسان پارٹی کی دستاویزات۔

کیا یہ حیران کن امر نہیں!

سوال یہ ہے کہ کیا آئین کو سامنے رکھے بغیر، کوئی سیاسی گفتگو بامعنی ہو سکتی ہے، خواہ آئین کو تبدیل کرنے کی بات ہی کیوں نہ ہو …

بایاں بازو ـ کچھ نہیں بدلا، کچھ بھی نہیں بدلا

کل گیارہ فروری کو ایک تقریب تھی، معراج محمد خان کی یاد میں ایک ریفرینس۔ مال روڈ پر، الحمرا ہال تین میں۔ ہال ’’ہاؤس فل‘‘ تھا۔ یہ ہیں کچھ اہم اور نمایاں نکات۔ صاف بات ہے کہ یہ میرے نقطۂ نظر سے اہم اور نمایاں ہیں۔
چونکہ بائیں بازو سے میرا بہت گہرا تعلق رہا ہے، لہذا، میں ایسے اجتماعات میں جانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک مقصد یہ جاننا بھی ہوتا ہے کہ اب بایاں بازو کہاں کھڑا ہے۔ گذشتہ تقریب جس میں مجھے جانے کا موقع ملا، وہ سترہ اپریل 2015 کو منعقد ہوئی تھی، اور یہ ڈاکٹرلال خان کی کتاب، ’’چین کدھر؟‘‘ کی رونمائی تھی، جس کے بارے میں یہ بلاگ پوسٹ دیکھی جا سکتی ہے: ’’چین کدھر؟ یا پاکستان کا بایاں بازو کدھر؟‘‘ 
’’عظیم انقلابی اور مزاحمتی سیاست کا میرِ لشکر: معراج محمد خان‘‘۔ یہ کتاب فکشن بُک ہاؤس نے شائع کی ہے۔ کتاب کے مرتب، ارشد