پاکستان کی سیاست میں ایک بنیادی تبدیلی

[نوٹ: یہ تحریر لکھنے کے بعد میں بارہا یہ سوچتا رہا ہوں کہ سیاست دانوں میں اگر عزم و ارادہ موجود ہو، اور وہ کچھ کرنے کا تہیہ کر لیں، تو وہ کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ یعنی سیاسی و حکومتی اور سول معاملات میں قائمیہ کی ازلی و بھرپور مداخلت اور بالادستی کے باوجود وہ شہریوں کی بہتری کے لیے کچھ کام تو ضرور انجام دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس تحریر میں کہا گیا ہے کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی اور ٹیکس اصلاحات، یہ دو کام اور پھر اور بہت سے کام تو کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں، شرط یہ ہے کہ سیاست دان شہریوں پر اعتماد کریں اور ان کی طاقت پر انحصار کریں، پھر وہ کچھ بھی کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ 17 جنوری، 2023 ]

یہ محض رائے تبدیل ہونے کا معاملہ نہیں۔

ویسے جب باہر کچھ تبدیل ہوتا ہے، رائے بھی …

فوجی مداخلت یا سیاست دانوں کی حیلہ جوئی

جیسے فوجی مداخلت ایک حقیقت ہے، اسی طرح، سیاست دانوں کی حیلہ جوئی بھی ایک حقیقت ہے۔

پاکستان کے شہریوں کے اصل ’’مجرم‘‘ سیاست دان ہیں۔ یہ میرا گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے بہت سوچا سمجھا نقطۂ نظر ہے۔ گوکہ بہت کم لوگ ہیں، جو اسے ماننے پر تیار ہیں۔

عیاں رہے کہ میں ایک آئین پسند ہوں، اور آئین کی بالادستی، آئینی کی حکمرانی اور ایک آئینی حکومت کے حق میں ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بہت سے معاملات میں یہ صرف سیاست دانوں کی حیلہ جوئی ہے کہ وہ فوجی مداخلت کو بہانہ بنا کر شہریوں کے لیے کچھ نہیں کرتے، اور اپنا گھر بھرتے رہتے ہیں۔

اسلام آباد (2017) میں ایک تقریب میں پاکستان مسلم لیگ ن کے احسن اقبال بھی مقرر کے طور پر شریک تھے۔ میں نے ان کے سامنے یہ بات کہی کہ کیا یہ فوج ہے، …

نواز شریف کیا کرنا چاہتے ہیں، انھیں صاف صاف بتانا ہو گا

سیاسی قضیے:17  جولائی، 2018

نواز شریف 1999 کے مارشل لا کے بعد جس مقام پر پہنچے تھے، آج ایک مرتبہ پھر مارشل لا کے بغیر اسی مقام پر پہنچ چکے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ لوگ سزا سے بچنے کے لیے پاکستان سے بھاگ جاتے ہیں، اور نواز شریف خود بھی ایسا کر چکے ہیں، مگر اس مرتبہ وہ سزا بھگتانے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہ کچھ عزائم رکھتے ہیں۔

ان سے متعلق ایک اور بات کہی جا رہی ہے کہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں، لہٰذا، وہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی۔ مگر میرے تحفظات، مجھے ان باتوں پر یقین نہیں کرنے دیتے۔ میرا موقف یہ ہے کہ نواز شریف کو کھل کر بتانا چاہیے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، اور کیسے کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں اپنا ایجینڈا واضح طور پر …

پاکستان مسلم لیگ (ن) کو انتخابات کا بائیکاٹ کرنا ہو گا

سیاسی قضیے: یکم جولائی، 2018

پاکستان مسلم لیگ ن کیا کرنا چاہ رہی ہے، غالبا اسے بھی خبر نہیں۔ یہ کس سمت میں جانا چاہ رہی ہے، کچھ واضح نہیں۔

ہاں، اتنا تو صاف ہے کہ یہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اسے یہ گمان ہے کہ یہ انتخابات جیت جائے گی، کم از کم پنجاب میں سو سے زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک دائرے کے اندر رہ کر لڑے گی، اس سے باہر نکل کرنہیں۔

لیکن جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں، یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی جا رہی ہے کہ ن لیگ کو پنجاب میں اکثریتی جماعت نہیں بننے دیا جائے گا۔ اگر ایک جانب، ن لیگ کے راستے میں ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، تو دوسری طرف، پاکستان تحریکِ انصاف کے راستے کی ہر …

سیاست اور میثاقِ وفاداری

سیاسی قضیے: 21 مئی،2018

کوئی بھی ہوش مند اور ذی عقل شخص اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ ایک ہی کشتی میں سوار افراد کی شکست و فتح جدا جدا ہو گی۔ کیونکہ اگر کشتی ڈوبتی ہے، تو غالب امکان یہی ہے کہ کشتی میں سوار ہر فرد ڈوب جائے گا۔

مگر سیاست دان ایک ایسی مخلوق ہو سکتے ہیں، جو ایسا سوچ بھی سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے نشئی (’’جہاز‘‘) ہیں، جو اپنے نشے کی خاطر اپنے ساتھی نشئی کو بھی قتل کر دیتے ہیں!

سیاست دان کسی بھی ملک کے ہوں، ان میں سے بیشتر ایسا ہی سوچتے اور ایسا ہی کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارا پالا پاکستانی سیاست دانوں سے ہے، لہٰذا، یہاں انھی کا رونا رویا جائے گا۔

کسی ملک کی سیاسی حدود، اس کی تشکیل کرتی ہیں۔ بلکہ اصل میں یہ آئین ہوتا ہے، جن میں ان …

انتخابات یا لاٹری

سیاسی قضیے: 3 مئی، 2018

کتنے برس کبھی اِس سیاسی جماعت، کبھی اُس سیاسی جماعت کے ساتھ لگے رہنے کے بعد، اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ یہاں ہونے والے انتخابات تو لاٹری کی طرح ہیں۔

یہ بات ایک علاحدہ معاملہ ہے کہ کونسے انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے یا نہیں تھے۔

پہلے پہل میں پیپلز پارٹی کا حامی رہا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا فسطائی چہرہ سامنے آنے پر یہ ساتھ ختم ہو گیا۔ اور 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر دھاندلی اور فسطائی ہتھکنڈوں کے استعمال کے بعد پی این اے (پاکستان نیشنل الائینس) کی احتجاجی تحریک کا ساتھ دیا۔

بیچ میں خاصے عرصے تک کوئی سیاسی وابستگی نہیں رہی۔  بلکہ اصل وابستگی بائیں بازو کے فلسفے کے ساتھ تھی۔

مگر پیپلز پارٹی کی مخالفت سر پر سوار تھی۔ دھوکہ بہت بڑا تھا، جسے میں عام لوگوں کے ساتھ …

ووٹ کو عزت دو ۔ ۔ ۔ یا ووٹر کو عزت دو

سیاسی قضیے:  19اپریل، 2018

فرض کیجیے نواز شریف آج وزیرِ اعظم ہوتے، تو اس سے عام شہری کو بھلا کیا فرق پڑ جاتا۔

اور کیا اس صورت میں مسلم لیگ ن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ زبان پر لاتی۔ قطعاً نہیں۔ سب کچھ حسبِ معمول چل رہا ہوتا اور راوی چین ہی چین لکھتا۔

کیونکہ نواز شریف اب وزیرِ اعظم نہیں، لہٰذا، یہ بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ اس سے صاف مراد یہ ہے کہ جسے ووٹ ملیں، اسے حکومت کرنے دو۔ وہ جیسے چاہے، اسے ویسے حکومت کرنے دو۔

سوال یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں اتنی حکومتیں بنیں بگڑیں، مگر کیا کسی حکومت نے ’’ووٹر کو عزت دو‘‘ کی طرف توجہ دی۔

کسی نے بھی نہیں۔

یہ تو اب چونکہ خود نواز شریف پر افتاد آن پڑی ہے، سو انھیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا معاملہ یاد آ گیا ہے۔

ویسے …

سیاست کے سینے میں آئین کیوں نہیں دھڑکتا؟

سیاسی قضیے: منگل 6 مارچ، 2018

چند برس قبل، میں نے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں کی مختلف دستاویزات دوبارہ دیکھنی شروع کیں، جن میں ان کی طرف سے شائع ہونے والے تجزیات، رپورٹیں، سالانہ جائزے، وغیرہ، شامل تھے۔ یہ چیزیں میرے پاس پہلے سے دستیاب تھیں، کیونکہ میں خود بائیں بازو سے وابستہ رہا تھا۔

ان دستاویزات کے مطالعے کے دوران، جس چیز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ’’آئین‘‘ کے ذکر کا مفقود ہونا تھا۔ ان میں قریب قریب تمام دستاویزات 1973 کے بعد سے تعلق رکھتی تھیں، مگر ان کے پس منظر میں ’’آئین‘‘ کہیں موجود نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، پاکستان سوشلسٹ پارٹی، یا مزدور کسان پارٹی کی دستاویزات۔

کیا یہ حیران کن امر نہیں!

سوال یہ ہے کہ کیا آئین کو سامنے رکھے بغیر، کوئی سیاسی گفتگو بامعنی ہو سکتی ہے، خواہ آئین کو تبدیل کرنے کی بات ہی کیوں نہ ہو …