دانشور اشرافیہ اور فکرودانش کا بحران

آپ سوچنے سمجھنے والے فرد ہیں۔ تصورات و نظریات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ درپیش معاملات و مسائل کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اپنے خیالات کو مجتمع کرتے ہیں، اور یہ چیز ایک مضمون کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

اب آپ کیا کریں گے۔ یہی کہ یہ مضمون کہیں شائع ہو تاکہ پڑھا جائے، زیرِبحث آئے۔ اور یوں آپ کے خیالات پرکھ و جانچ کے عمل سے گزریں۔ اور اگر درست اور موثر ہیں تو ان کی پذیرائی ہو۔ اور یوں ممکنہ طور پر یہ کسی تبدیلی کا سبب بن سکیں۔

مگر پاکستان میں ایسا ہونے کے امکانات قریب قریب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آپ نے مضمون قلمبند کر لیا۔ اب یہ مرحلہ درپیش ہو گا کہ یہ شائع کیسے ہو۔

پہلا کام تو یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اسے بطور خط یا بطور ایمیل کسی اخبار کو بھیج دیں۔ مگر یوں اس کے شائع ہونے کا غالباّ کوئی …

شیریں مزاری پر کونسے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے

دانشور اشرافیہ، ثقافتی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ کا ایک مخصوص حصہ شیریں مزاری پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ ٹوٹے ہیں، ان پر ہاہا کار مچائے ہوئے ہے۔

یہ ہاہا کار اس وقت بھی مچی تھی، جب ایک مرتبہ پہلے انھیں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی دختر ایمان مزاری نے جینرل باجوہ کو گالی دی تھی۔ اور غالبأ ایک اور موقعے پر شیریں مزاری نے خود جو پولیس انھیں گرفتار کرنے آئی تھی، انھیں بھی گالی دی تھی۔

ایمان مزاری نے اپنی والدہ کی پے در پے گرفتاری پر جو اشک بہائے، ان پر بہت دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ کسی ’’سیاسی قائد‘‘ (شیریں مزاری) پر ظلم ہوا ہے۔

گو کہ یہ واضح نہیں کہ شیریں مزاری تحریکِ انصاف میں کیونکر اور کیسے شامل ہوئی تھیں، اور اب اگر یہ مان بھی …

اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ کا اجارہ کیونکر قائم ہے

اگر کوئی شخص اپنی نارمل زندگی سے اوپر اٹھ کر اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ کے تانے بانے کو توڑنا چاہے، ریاست اور اس کے وسائل پر ریاستی اشرافیہ کے غیر آئینی غیر قانونی قبضے کو چیلنج کرنا چاہے، دانشور اشرافیہ نے فکر و نظر کے اشاعت کدوں پر جو اجارہ قائم کیا ہوا ہے اس پر سوال اٹھانا چاہے، تو اسے تنہا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے تصورات، نظریات اور تجزیات کو گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کام محض اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور دانشور اشرافیہ ہی نہیں کرتی، بلکہ اصل میں یہ کام اجلافیہ، بزعمِ خود اجلافیہ کے نمائندے، اشرافیہ پسند اور اشرافیہ پرست کرتے ہیں۔

مگر اب آج سوشل میڈیا دستیاب ہے، جو کم از کم اوپر جس کا ذکر ہوا ایسے فرد کے تصورات، نظریات اور تجزیات کو تنہائی کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ گو کہ اشرافیہ، ریاستی اشرافیہ اور …

Defining Ashrafiya, Riyasati Ashrafiya and Danishwar Ashrafiya

Note: The following exchange took place in a WhatsApp group. The name of the objector is being withheld.

Objection by Someone:

Never understand this elite bashing. Are these old Marxists in new garb? Are we bashing success? Do we want communism?

Reply by KA:

Kindly pen down your (anti-) thesis and then anyone may counter it. I will do.

Objection by Someone:

Pen down what. I don’t fight ghosts. No one defines elite. They just talk of this socialist concept. Any one with money is elite

Reply by KA:

No, having money is not an essential feature of the Ashrafiya. Those who use word Elite may mean something else. In English, the equivalent of Ashrafiya is Aristocracy.

Objection by Someone:

Ok so what is elite capture. Where does it not exist.

Reply by KA:

In short, Ashrafiya was already there (subcontinent, monarchs, nabobs, etc). The state was already there. It …

What’s Danishwar Ashrafiya?

Danishwar Ashrafiya (دانشور اشرافیہ) is that class of intellectuals who has monopolized the publishing space, i.e. mainstream print and electronic media and publishing houses.
And sometimes it appears that this Danishwar Ashrafiya is the ‘main culprit.’

دو سو سال طویل خواب، مغل اشرافیہ اور پاکستانی اشرافیہ

۔ بایاں بازو، دایاں بازو، لبرل، اور جو بھی ایسے ہی دوسرے انداز ہائے نظر موجود ہیں، یہ سب کے سب اب تک انگریزوں کو رد و مسترد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

دو سو سال طویل خواب، مغل اشرافیہ اور پاکستانی اشرافیہ

۔ یعنی انگریزوں کو گئے، ستر برس سے زیادہ ہو گئے، مگر یہ اب تک ان کو رگیدے جا رہے ہیں۔

۔ (اور یہ چیز قابلِ غور ہے کہ اگر اتنے برس بعد بھی ان کو رگیدا جا رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہیں بہت گہرائی میں جا کر کچھ نہ کچھ ایسا ہے جسے اس کی جگہ سے ہلا گئے ہیں۔)

۔ اور اب تک بتایا جا رہا ہے، وہ نہ آتے، تو ہم کہاں ہوتے، اور کیسے ہوتے۔ اور انھوں نے آ کر ہماری ترقی یافتہ تہذیب، ثقافت، صنعت، وغیرہ، کو کیسے برباد کر دیا۔ اور اب تک ہر بری اور غلط چیز کا رشتہ کولونیل دور سے جوڑ دیا …

مایوسی کی نیند

اپنی مایوسی کو اگر کسی چیز سے تشبیہ دینا چاہوں، تو ایک ایسی ترکیب اور ایک ایسی عمارت کا ڈھانچہ ذہن میں آتا ہے، جسے گنبدِ بے در کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسا گول کمرہ، جس میں کوئی دروازہ نہیں، کوئی کھڑکی نہیں، کوئی روشن دان نہیں۔ اور نہ ہی کوئی درز یا جھری کہ روشنی اندر دم مار سکے۔

آپ کہیں گے یہ تو گھٹن والا ماحول ہوا، مایوسی تو نہیں۔ ہاں، مگر بعض اوقات اور بعض صورتوں میں مایوسی بھی اسی شکل میں سامنے آ سکتی ہے اور آتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی اعتبار سے جو مایوسی ہر سو چھائی ہوئی ہے، وہ اسی قسم کی مایوسی ہے۔

میں نے کہا، سیاسی اعتبار سے۔ یعنی سماجی اعتبار سے جیسی بھی مایوسی ہو، وہ اس قسم کی نہیں، جیسی کہ سیاسی مایوسی ہے۔

سماجی مایوسی کا تعلق خاصی حد تک اخلاقی بحران سے ہے۔

مگر سیاسی مایوسی گنبدِ …

محترم رؤف کلاسرا ۔۔۔ آپ کا ہدف غلط ہے۔

یہ تحریر آپ کے 2 اپریل کے ولاگ کے جواب میں ہے۔

صرف دو باتیں آپ کے سامنے رکھنا مقصود ہے۔

مسابقتی (کمپیٹیشن) کمیشن نے مختلف کمپنیوں کو جرمانے کیے ہیں، جن کا ذکر آپ نے کسی قدر تفصیل سے کیا، اور انھوں نے عدالتوں سے سٹے آرڈر لے لیے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے ایک کمپنی کو سٹے آرڈر لیے ہوئے دس برس کا عرصہ گزر گیا، اور جرمانہ ادا نہیں ہوا۔ اس سے یہ باور ہوتا ہے کہ عدالتیں جرمانوں کی عدم ادائیگی میں ان کمپنیوں کے ساتھ ملوث ہیں۔ ممکن ہے ہوں بھی۔ اور اگر مسابقتی کمیشن اور حکومتیں دونوں اب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں، تو یہ بھی جرمانے کی عدم ادائیگی میں ان کمپنیوں کے ساتھ ملوث ہیں۔ یعنی یہ ریاستی اشرافیہ کا ایک کھیل ہے۔ یہ سب آئین، قانون اور اداروں کے آئینی اور قانونی مینڈیٹ کی خلاف ورزی …

دھڑا دھڑ لیے گئے قرضے کیا لوگوں کی جیبیں کاٹ کر ادا کیے جائیں گے؟

یہاں کچھ ٹویٹس منسلک کی جا رہی ہیں:

ہر حکومت جس طرح قرضے لیتی ہے، اس سے یہ باور ہوتا ہے کہ انھیں کوئی پروا نہیں، کیونکہ ان قرضوں کی ادائیگی کونسا ان کی جیب سے ہو گی۔

اس رویے کا کیا حل ہونا چاہیے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

ایک بات تو یہ عیاں ہے کہ جب تک ذمے داری عائد نہیں کی جائے گی، ہر کوئی اسی طرح بغیر سوچے سمجھے قرض لیتا رہے گا۔

دوسرے یہ کہ ایک کارکردگی آڈٹ ہونا چاہیے، جس کا مقصد یہ دیکھنا اور بتانا ہو کہ کونسا قرض غیرضروری تھا، اور کونسا قرض ضروری تھا، اور جو ضروری تھا، اس میں سے قرض کی کتنی مقدار کہاں خرچ ہوئی۔ اور اس میں سے کتنی مقدار غیرضروری چیزوں پر خرچ ہوئی۔

تیسرے یہ کہ قرض کا جو حصہ غیرذمے داری سے غیرضروری چیزوں پر خرچ کیا گیا، اس کے ضمن میں ذمے داروں …

Addendum to the conversation: What should we (the civil society) be doing in India and Pakistan

Here is the link to the original conversation:

https://pakpoliticaleconomy.com/?p=1774

As Jayant Bhandari and I conversed, a few others joined. Since they commented publicly, below are copied, though anonymously, what did they add.

Anonymous 1: “state fulfilling its constitutional role/responsibilities”, “Form a political party to work as an institution”. ??? How much longer can grown-ups believe in these fairy tales of a benevolent state controlled by a political process – when the reality, right before their eyes, is so different, and not in a good way?

Khalil Ahmad: I fear you miss the context of the discussion. The context is Pakistan and India, especially.

Anonymous 1: Pakistan and India – even more so. Transpose the western idea (a fairy tale, really) of a enlightened benevolent state responsive to political process inputs, and viola! – we have two examples of prosperity and peace – India and Pakistan

KA: First I didn’t talk …

اشرافیہ کی سیاست اور ’’پشتون تحفظ موومینٹ‘‘ کی سیاست

سیاسی قضیے: 15اپریل، 2018

اشرافیہ کی سیاست، بخشنے، عطا کرنے،  دینے اور دان کرنے سے عبارت ہے۔

جیسے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ۔

یا پھر بلا تعطل بجلی کی فراہمی۔ یا جیسے کہ سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، وغیرہ۔

اور ایسی ہی دوسری چیزیں، جو وقت اور موقعے کی مناسبت سے اشرافی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ بنتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ یہ چیزیں لوگوں کو اپنے پیسے سے مہیا کرتے ہیں۔

اس کا صاف جواب ہے: قطعاً نہیں۔

خواہ یہ روٹی، کپڑا اور مکان ہو، یا بجلی، یا کوئی اور چیز۔ یہ تمام چیزیں لوگوں کو قیمتاً مہیا کی جاتی ہیں۔ اور نجی کاروباروں کی نسبت کہیں زیادہ مہنگی قیمت پر۔ اگر کوئی چیز کبھی ’’مفت‘‘ کہہ کر مہیا کی جاتی ہے، تو اس کی قیمت بھی لوگوں سے ٹیکس کی صورت میں وصول کی جا رہی ہوتی ہے۔…

Pak polity – racing backwards

So to say, in about 70 years, the political gains Pakistan’s polity has been able to make are dismal! Pessimistically, it’s NOTHING! Optimistically, it’s merely the Constitution that itself came to be agreed upon about 25 years after the country’s emergence on the map of the world. That casts a heavy doubt on the credence of Pakistan’s polity. Politically speaking, things stand in the same mould now they stood on the first day. The final verdict on the quality of the Pak polity may thus be worded: The citizens still live at their own risk in a country which is consuming itself by its own pseudo-nationalist, religious, militarist rhetoric!
No wrangling, the fact is that no politician and no political party find the constitution and its provisions tolerable to their will and temperament; they trample them whenever they see any of it

Malala’s Peace Prize, cynics and ashraafists

The case of 2014 Nobel Peace Prize awarded to Malala Yousafzai, which she shares with an Indian Kailash Satyarthi, who has devoted himself to the cause of child slavery, may be used as a litmus test should we want to know the bent of mind of any Pakistani fellow. This will help us know whether someone is a cynic or an ashraafist or both. Ask someone what he thinks about the Nobel Peace Prize for Malala; if he tells you, ‘Please, no joking!,’ be assured that he is both a cynic and an ashraafist. Some of the refined souls may be so artful that they would argue they are not this or that and are different from the lot; but their rhetoric reveals whether they are exclusively cynic or ashraafist only.
As cynics are souls in anguish who in their mysterious, unknown,