Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

انفرادی شناخت کا مسئلہ، سیاست اور انصافیے

دوسرے اور بہت سوں کی طرح، میں بھی اس مسئلے پر سوچتا رہا ہوں کہ جیالے، نونیے، انصافیے، وغیرہ، کیسے اور کیونکر جنم لیتے ہیں۔ چکبست برج نرائن کے الفاظ میں، ان کے ظہور میں عناصر کی کیا ترکیب کام میں آتی ہے، اور ان کے اجزا پریشاں کیسے ہوتے ہیں۔ ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔ یا پھر اقبال کے انداز میں، یہ کونسے ’’چار‘‘ یا کم یا زیادہ عناصر ہیں، جو ہوں تو اس نوع کی ’’نوع‘‘ بنتی ہے۔ یہاں ابتدا ہی میں یہ بات سامنے رکھ دینا مناسب ہو گا کہ پہلے جو سیاسی انواع پیدا ہوتی رہی

Read More »

PTI and One-Dimensional Men

Almost all the persons who joined IK (PTI) and devoted their wealth and energy to bolster his image and politics are without any exception one-dimensional men. Not the politicians who jumped into the PTI-ship purposely. They are an exception. One-dimensional men cannot see that the reality is a complex structure/phenomenon. And they can’t understand the multilayered reality in its complex manifestations. Thus they try to make everything and everyone conform to their black and white view of reality. There they fail miserably, or fail themselves miserably. The whole IK-PTI complex is an example of it. They failed miserably and they

Read More »

معلومات پر مبنی تجزیے کرنے والے اندھیرے میں‌ ٹامک ٹوئیاں‌ مار رہے ہیں

کسی کو کچھ پتا نہیں کون کیا کرنے جا رہا ہے۔ کون کیا کرے گا۔ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔ یعنی تجزیہ کاروں کے پاس کوئی معلومات نہیں۔ انھیں معلومات نہیں مل رہیں۔ کہیں سے بھی نہیں۔ غالباً ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مہیا کی گئی معلومات کو بنیاد بنا کر تجزیہ کرنے والوں کو اپنی عقل و فہم کی مدد سے تجزیہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ یہ سب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ان کے تجزیے بے کار ہو کر رہ گئے ہیں۔ آیا اس کا مطلب

Read More »

Back to the Basics: Will of the People

The will of the people is supreme. That is, their will via their representatives is supreme. That is, all the entities brought into existence by the constitution though they be independent in the performance of their mandate are accountable to the people’s representatives. It is thus that the representatives of the people are accountable to the people by mainly way of fair, free and transparent elections. But practically all that has long been rigged in favor of the unelected entities. That must change back to the constitutional scheme of things.

Read More »

The Ultra-Executive

In Pakistan, another organ of the state has come into existence. That is Ultra-Executive. Security Establishment is the core of it and Judiciary and the ECP are an integral part; without them no political engineering is possible. Now the only thing that remains affiliatable and accountable to the people is Parliament (Legislature) and that only when free, fair and transparent elections are allowed to be held. That’s how the Riyasati Ashrafiya (ریاستی اشرافیہ) is evolving in Pakistan.

Read More »

Understanding political reality

Like other realities such as physical or social, the political reality too is layered. It’s not the surface and the bottom that make it. So understanding political reality requires multilayered thinking and analytical skills. And in order to change the political reality, a multilayered approach is a sine qua non. Linear and binary thinking and approach may not help, and one is always stuck in a rut.

Read More »

سپریم کورٹ کا مخمصہ ۔ درونِ دائرہ حل

قومی اسیمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے سے متعلق، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ کے ضمن میں سپریم کورٹ کا از خود نوٹس، اور اس سے متعلق دوسری اپیلوں پر متعلقہ بینچ نے شنوائی پر کوئی پانچ دن صرف کیے۔ اور پانچویں دن شام ڈھلے مختصر فیصلہ سنایا۔ یہ پانچ دن، پاکستان کی سیاست اور مشوش شہری سولی پر لٹکے رہے۔ گو کہ جب فیصلہ آیا، تو غبار چھٹ گیا، اور سوائے تحریکِ انصاف اور اس کے پیروکاروں کے، کم و بیش ہر کسی نے اس پر مسرت و اطمینان کا اظہار کیا۔

Read More »

Politics is not Black & White

Politics is complex. It’s not Black & White. If there is no more Black, that doesn’t mean now it’s all White. No, it’s Grey. A large Grey area. From it, may emerge bits of White. And it requires clarity, patience, perseverance and courage on our part. Politics is a game of securing what we envision inch by inch while strictly following the constitution, moral values, political traditions, non-violence and peaceful means.

Read More »

Anti-Constitution, Anti-Democracy, Anti-Morality Politics is not going to stay here

IK-PTI, that’s a shallow phenomenon. It has no basis in the economic reality of the country. The narrative of corruption, taking turns in power (PPPP-PMLN), was/is a negative, anti-constitution, anti-democracy, and anti-morality. It’s not going to survive…provided it is not pumped up again, like it was done in 2011, 2014, and then finally in 2018. In 2014, all the support was thrown into the project, be it media, ECP, judiciary, etc, and the non-civilians. All through the 3 plus years, the same support was provided. But it couldn’t deliver. It’s a negative phenomenon, it’s all Negative politics (https://pakpoliticaleconomy.com/?p=2321) بُغض کی

Read More »

سعادت حسن منٹو ۔ کون؟

سعادت حسن منٹو ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ ایک متنازعہ مصنف ہیں۔ ایک متنازعہ افسانہ نگار ہیں۔ ان کے بارے میں متعدد سوالات تسلسل کے ساتھ زیرِ بحث ہیں۔ وہ ترقی پسند تھے یا نہیں۔ اول اول انھیں ترقی پسندوں نے مسترد کیا۔ بعدازاں، اپنے اس انکار سے پھِر گئے۔ حالیہ طور پر انجمنِ ترقی پسند مصنفین کی جو صورتیں سامنے آئیں اور موجود ہیں، وہ انھیں ترقی پسند قرار دیتی ہیں۔ رجعت پسند تو تھے ہی ان کے مخالف۔ وہ فحش نگار جو ٹھہرے۔ ’ان کے دماغ پر عورت جو سوار تھی۔‘ ان کی شخصیت کے بارے میں، کتنے ہی

Read More »

ریاستی معیشت اور شہری معیشت” سے متلق ایک وضاحت طلب معاملہ”

متذکرۂ بالا کتابچے سے متعلق وٹس ایپ کے ذریعے ایک سوال پوچھا گیا ہے۔ ’’اگر استدلال دولت کی تخلیق سے شروع ہو گا تو اس سے دولت کی تقسیم کا نتیجہ نکالنا کارے دارد بن جائے گا اور یہ اخلاقی طور پر تو بالکل ممکن نہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ ذرا تفصیل سے بتائیے گا مثالوں کے ساتھ ۔ صفحہ 19‘‘ جواب کو مختصر رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، میں دو زاویوں کو سامنے لانا چاہوں گا۔ پہلا زاویہ: اخلاقی اقدار میں سے ’’چوری نہ کرو‘‘ ایک بنیادی قدر ہے۔ اس میں وہ تمام افعال شامل ہیں، جو کسی

Read More »

سیاست اور اخلاقیات کے تعلق کا معاملہ

جہاں تک سیاست اور سیاسی معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ لکھنے کی بات ہے، تو خورشید ندیم ایسے ہی کالم لکھتے ہیں۔ سیاسی وقوعات جن دھاگوں میں پروئے ہوتے ہیں، وہ انھیں گرفت کرتے ہیں، اور پھر ان دھاگوں کو علمی و فکری مسائل کی شکل میں بیان کرتے ہیں۔ اور پھر ان مسائل کے حل سے بحث بھی کرتے ہیں۔ پاکستان بھر میں اخبارات کے کالموں میں کون ایسا کام کر رہا ہے، یا ایسی پُرمغز تحریر لکھ رہا ہے، غالباً کوئی نہیں۔ میں پہلے بھی ان کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکا ہوں۔ گو

Read More »

نہ بھولنے والی دو کہانیوں کی یاد

کوئی تین دہائیوں پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی، جس میں دنیا بھر سے چنی گئیں سو عظیم ’’شارٹ سٹوریز‘‘ شامل تھیں۔ ایک کہانی تو کمال ہی تھی۔ ویسے ایک اور کہانی بھی تھی اس میں، جو مجھے بھولتی نہیں۔ گاؤں کا باسی ایک امریکی پہلی مرتبہ قریبی شہر جاتا ہے۔ وہاں اسے ایک مشروب گاہ میں کچھ وقت گزارنا پڑتا ہے۔ وہ ایک میز پر بیٹھا ہوا ہے۔ ایک آدمی آتا ہے، اور اس سے اجازت لے کر خالی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ دیر میں دونوں کے درمیان گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ اور چند ہی

Read More »

بُغض کی سیاست اور حُب کی سیاست

[نوٹ: ہمارے یہاں گفتگو میں ’’بُغض ۔۔۔‘‘ اور ’’حُب ۔۔۔‘‘ کی اصطلاحات عام ہیں۔ میں اصل الفاظ کے استعمال سے بوجوہ گریز کر رہا ہوں۔] پاکستان کی بیشتر سے بھی زیادہ سیاست بُغض کی سیاست ہے۔ مراد یہ کہ یہ نفرت، عداوت، انتقام کے جذبات سے مغلوب سیاست ہے۔ اسے ’’مبنی بر بُغض سیاست‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یعنی یہ مثبت اور تعمیر کی سیاست نہیں۔ یہ منفی اور تباہی کی سیاست ہے۔ تو کیا جو تھوڑی بہت سیاست باقی رہ جاتی ہے، وہ حُب کی سیاست ہے؟ اس کا جواب ’’شاید‘‘ یا ’’غالباً‘‘ کہہ کر دیا جا

Read More »

3rd World War is an Economic War: a short note

The world is thus connected today economically it was never so in the past. That means both dependence and interdependence, and sort of a combined survival of and for all. In the past, there were regions that could stand isolation and survive economically. For example, some African, Asian and Latin regions. Not so now. Economic dependence/interdependence is technological dependence/interdependence. And vice versa. Whether the Ukraine-Russia war will escalate or not, or what direction will it take, is too early to say. However, it is clear that the USA and Europe instead of partnering with Ukraine are preferring economic measures, that

Read More »

سادگی کا رنگ

ان کی سادگی کا رنگ اتنا گہرا ہے، اس کا احساس نہیں تھا مجھے۔ ہاں، اتنا ضرور معلوم تھا کہ ان کی زندگی سادگی سے عبارت ہے۔ آج ہی صبح مسجد کے سپیکر سے اعلان ہوا، ’تعظیم الدین کے والد احترام الدین کا قضائے الہٰی سے انتقال ہو گیا ہے، ان کی نمازِ جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔‘ کوئی دو گھنٹے بعد میں باہر گلی میں آیا تو ان کے گھر کے باہر کرسیاں بچھی تھیں، اور چند لوگ بیٹھے اور کچھ کھڑے تھے۔ میں بھی وہاں جا کر چار پانچ لوگ گفتگو کر رہے تھے ان

Read More »

The Economic Advisory Group (EAG) and its Economics

On March 1 (2022), EAG Pakistan twitter handle @eagpakistan posted 6 tweets reacting to the incumbent regime’s “relief measures for the people.” Here are the tweets: PM’s decision to provide benefits of various sorts–lower fuel & elec prices & subsidized loans & tax exemptions for selected sectors–continues long & inglorious tradition of country’s top leadership enacting policies erratically in defiance of the most basic econ principles1/3 The benefits announced will be celebrated briefly as “relief” but will further deteriorate Pakistan’s financial health, because they create a burden that its decrepit tax machinery cannot shoulder through prudent revenue collection elsewhere. 2/4

Read More »

گلیوں بازاروں کا چوکیداری نظام

چیزیں خودرو انداز میں کس طرح وجود میں آتی ہیں، اور کس طرح، روایت اور پھر ایک غیررسمی نظام میں ڈھل جاتی ہیں، اس تحریر کا مقصد اسی مشاہدے کو بیان کرنا ہے۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر وہی شناسا چہرہ تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، ہماری گلی اور دوسری کئی گلیوں میں یہی صاحب بہت عرصے سے چوکیداری کر رہے ہیں۔ اور جیسا کہ خاصی حد تک ایک معمول ہے کہ یہ صاحب بھی پختون ہیں۔ کئی برس قبل ان کے ساتھ میری تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ انھیں جو پیسے ماہانہ دیے جاتے تھے، وہ دس روپے

Read More »

آیا پاکستان میں خیالات جنم لے رہے ہیں یا نہیں؟

مجھے جس چیز نے اس سوال پر غور کرنے اور اس کا جواب دینے پر اکسایا، وہ ڈاکٹر ندیم الحق کی یہ رائے ہے کہ پاکستان میں خیالات جنم نہیں لے رہے۔ ڈاکٹر ندیم الحق معیشت دان ہیں۔ وہ آج کل پائیڈ (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس) کے وائس چانسلر ہیں۔ وہ اس عہدے پر پہلے بھی متمکن رہے ہیں۔ وہ منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین بھی تھے۔ ان کی طرف سے یہ سوال حال ہی (3 فروری، 2022ء) میں ٹویٹر پر اٹھایا گیا۔ ’’دہائیوں سے تدریسیاتی کاہلی کو فعالیت (مراد ہے سیاسی فعالیت۔ خلیل) میں چھپایا جاتا رہا

Read More »

سچائی، سقراط اور موت: کیا جان بچانا ایک موثر فیصلہ نہیں ہوتا؟

سقراط کو سچائی کے ساتھ اور سچائی کو موت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ کیسے؟ اور کیوں؟ غالباً اس پر غور نہیں ہوا۔ یا ہوا ہے تو میری نظر سے نہیں گزرا۔ فلسفہ، تاریخ، ادب، شاعری، جو کچھ بھی پڑھا، وہاں سقراط کا ذکر ضرور تھا۔ اور پھر سچائی کے لیے اس کی موت کا بھی۔ اور اردو شاعری نے تو سقراط اور زہر کے پیالے دونوں کو امر کر دیا۔ سیاست، مزاحمت، انقلاب، یہاں بھی سقراط، اور سچائی کے لیے اس کی موت کے بغیر کام نہیں چلا۔ ہر انقلابی، سقراط کا اوتار بننے کا شائق نکلا۔ جب پہلی

Read More »

خوشحالی کی لہر یا شکستہ خواب: خودکلامی

میرے اکثر خواب بھی آزمائش کی طرح ہیں۔ سوچتا ہوں ارشد صاحب کو بتاؤں، جو دوست ہیں، اور سائییکالوجسٹ اور ہپناتھیراپسٹ بھی، اور پوچھوں کیا مطلب ہے ان کا۔ مگر پھر خیال آتا ہے، آزمائش پر تو پورا اتر جاتا ہوں، پوچھنے کی کیا ضرورت۔ یہ عجیب و غریب خواب ہیں۔ ان دیکھے رستے، پہاڑ، گلیاں، کثیرمنزلہ مکانوں، زینوں اور سیڑھیوں کا سلسلہ۔ گڑھوں سے بھری سڑکیں۔ اور ناسازگار حالات۔ ہر جگہ مشکل درپیش ہوتی ہے، اور میں ہمت ہار جاتا ہوں، مگر پھر کوشش کرتا ہوں، اور منزل پا لیتا ہوں۔ بلکہ میں نے جو کہانیاں لکھیں، ان میں

Read More »

انگریز ہندوستان کیا کرنے آئے تھے

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انگریز ہندوستان آئے تھے تو انھیں ہمیں کچھ دینے کے لیے آنا چاہیے تھا۔ یہ وہ بنیادی قضیہ ہے، جس کی بنیاد پر تمام قسم کی انگریز دشمنی استوار ہوئی ہے۔ ان لوگوں میں بایاں بازو، نوآبادیات دشمن (اینٹی کولونیل) دانشور اور اہل الرائے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ دائیں بازو کا دعویٰ بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ وہ اس بات پر ذرا زیادہ زور دے دیتے ہیں کہ انگریز یہاں مسلمانوں سے حکومت چھیننے اور مسیحیت کی تبلیغ کرنے آئے تھے۔ نفسیات دانوں کو اس بنیادی قضیے کے پیچھے کارفرما نفسیاتی

Read More »

ریاستی اشرافیہ کا نظریہ: ایک اہم نکتہ

ابھی انھی دنوں امریکہ کے چوتھے صدر، جیمز اے میڈیسن (1751-1836) کا ایک قول/اقتباس دیکھنے کو ملا۔ میڈیسن امریکہ کے ان تین اہم بانیوں میں سے ہیں، جنھوں نے ’’وفاق پسند مباحث‘‘ (The Federalist Papers) میں حصہ لیا اور یوں امریکی آئین کی توثیق کو ممکن بنایا۔ دوسرے دو، الیگزینڈر ہیملٹن اور جان جے ہیں۔ پہلے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے: ’’قانون سازی، انتظامی اور عدالتی، تمام اختیارات کے یکساں ہاتھوں میں ارتکاز کو، خواہ یہ کوئی ایک (فرد) ہو یا متعدد (افراد)، اور خواہ یہ وراثتی ہو، خودمقررہ، یا انتخابی، درست طور پر استبدادیت کی تعریف مانا جا سکتا

Read More »

پاکستان اور دانشوروں کا کردار

یہاں یہ معاملہ زیرِ بحث نہیں کہ دانشور کی تعریف کیا ہے۔ یا یہ کہ دانشور کسے کہا جائے۔ ان معاملات سے تفصیلی بحث میری نئی آنے والی کتاب، ’’دانشور اشرافیہ: تانا بانا، اجارہ، کردار‘‘ میں موجود ہے۔ لہٰذا، یہ جان لینا کافی ہے کہ پاکستان میں عملاً کون لوگ دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور کون نہیں۔ اساتذہ، خواہ وہ کالجوں سے تعلق رکھتے ہوں، یا یونیورسیٹیوں سے، یا دوسرے تدریسی اداروں سے، انھیں دانشوروں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ تدریس کا دانش یا دانشوری کے ساتھ کوئی تعلق

Read More »

بات آگے کیسے بڑھے گی؟

اگر آپ اپنی بات پر قائم ہیں، میں اپنی بات پر قائم ہوں، تو بات آگے کیسے بڑھے گی؟ کچھ عرصے سے یہ معاملہ مجھے ان مباحث میں معلق نظر آ رہا تھا، خود میں بھی جن مباحث کا حصہ تھا۔ ہر کوئی اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔ اکثر بحث اس بات سے فیصل ہو جاتی ہے کہ ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ تو کیا یہ کوئی رائے سازی کا مقابلہ ہے۔ یعنی ہر کوئی اپنی ایک رائے رکھتا ہے، یا نہیں۔ یا ہر کوئی ہر دوسرے کو اپنی رائے سنا بتا دے، اور بات ختم۔

Read More »

The GST and the SBP Bill — the Issues

Both measures are largely Ashraafist. Serving or saving the Riyasati Ashrafiya and Ashrafiya from the tax-burden. The GST (General Sales Tax) may be delayed and/or levied in parts/instalments/gradually. I.e. On some items, and say 5% and then gradually may be increased with time, but must remain below the single digit limit, as recommended by the Prime Institute. If they need to raise this or that amount, they should cut the size of the government and cut the noncombat defense expenditures. Also, they should withdraw all tax exemptions/perks and privileges available to various classes of Riyasati Ashrafiya and Ashrafiya. But that’s

Read More »

کیا انتخابات کے نتائج کی تعبیر ممکن ہے؟

نوٹ: اس تحریر میں وضع کیا گیا نظریہ دو چیزوں سے مشروط ہے۔ اول، صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات، اور، دوم، سیاست میں کسی خارجی عامل یا قوت کی عدم مداخلت۔ (یاد رہے کہ مداخلت بلاواسطہ یا بالواسطہ دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے، جیسا کہ پاکستان میں پراکسی (یعنی نائبی) سیاست بھی ہوتی ہے یا کی جاتی ہے۔) انتخابات کے تنائج اعداد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کسی نے اتنے ووٹ حاصل کیے، اور اس کے حریفوں کو اتنے اور اتنے ووٹ ملے۔ اور یوں وہ اپنے حلقے میں اتنے ووٹوں کی برتری سے انتخاب جیت گیا۔ اور

Read More »

تصور کریں بیس برس بعد کا پاکستان کیسا ہو گا ـ ایک لاحاصل تصور

’’ساتواں ایاز میلو‘‘ حیدرآباد، سندھ میں منعقد ہوا۔ ڈان (23 دسمبر، 2021ء) کے مطابق، میلے میں دانشوروں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو پھر سے تصور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان دانشوروں میں ڈاکٹر جعفر احمد، غاذی صلاح الدین، ڈاکٹر سحر گل، ڈاکٹر ظفر جونیجو شامل ہیں۔ ہاں، اس چیز کے بارے میں پہلے بھی پڑھا سنا ہوا تھا۔ مگر برس 2010ء اچھی طرح یاد ہے۔ اس وقت میں آلٹرنیٹ سالوشنز انسٹیٹیوٹ (اے ایس انسٹیٹیوٹ) کے معاملات کا منتظم تھا۔ علی سلمان اور میں، ہم دونوں نے مل کر ایک نیا کام شروع کیا۔ یہ تھا: فکری

Read More »

ترانوے (93) ہزار قیدی ۔ بزدلی یا بہادری

اس سے پہلے کہ جو بات کہنی ہے، وہ کہی جائے، چند باتیں، جو اس تحریر پر اعتراض کی صورت میں وارد ہو سکتی ہیں، ان کی توضیح ضروری ہے۔ ـ جنگ بہر صورت ایک غیرانسانی فعل ہے۔ ـ جنگ ایک غیراخلاقی فعل ہے۔ ـ لیکن چونکہ اس سے مفر نہیں، لہٰذا، صرف اس جنگ کو جواز دیا جا سکتا ہے، جو اپنے دفاع اور اپنے تحفظ کے لیے لڑی جائے۔ ـ لیکن میں اس گنجائش کو بھی مشروط کرنا چاہتا ہوں۔ ـ یعنی یہ گنجائش صرف ملکی سطح پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ ـ یعنی دو یا زیادہ

Read More »

ووٹ کو عزت دو – ایک نامکمل سیاسی بیانیہ

سیاسی بیانیے سیاست کا رخ متیعن کرتے ہیں۔ جیسا کہ چند سال قبل مسلم لیگ (ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ سامنے آیا۔ یہ بیانیہ سویلین بالادستی کی عدم موجودگی پر دلالت کرتا تھا، اور کرتا ہے۔ یعنی سول حکومت کی بالادستی کے قیام پر اصرار اس کا خاصہ ہے۔ یہ بیانیہ پاکستان کی سیاسی حقیقت کو مخاطب کرتا ہے۔ اور اس کا حل بھی تجویز کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ جس سیاسی جماعت کو ووٹ ملیں، اس سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کی عزت کی جائے۔ لیکن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ ایک نامکمل بیانیہ ہے۔ کیوں؟

Read More »

اخلاقیات اور مذہب، اور سیاست: دخل در معقولات

عزیز دوست علی سلمان نے فیس پر نعیم بلوچ صاحب کی ایک پوسٹ کی طرف متوجہ (ٹیگ) کیا۔ یہ پوسٹ بیشتر عملی مذہب اور اخلاقیات کے تعلق سے بحث کرتی تھی۔ نعیم بلوچ صاحب، المورد گروہ سے منسلک ہیں، فیلو ہیں وہاں۔ دیکھیے ان کی 10 نومبر بوقت 10:52 PM کی پوسٹ، بعنوان: مادرِ علمی میں۔ مزید دیکھیے اس پر ڈاکٹر رضوان حیدر  صاحب کا تبصرہ۔ میں نے علی سلمان سے پوچھا، میں نے پوسٹ دیکھ لی ہے، آیا مجھے تبصرہ کرنا چاہیے، کیا میرا تبصرہ اس گروہ میں قبولیت پائے گا۔ ان کا جواب تھا، بالکل قبول کیا جانا

Read More »

ریاست یا معاشرہ ۔ کسے صحیح کرنا ہے

پاکستان میں اہلِ دانش، عقلِ سلیم (کامن سینس) کو خیرباد کہتے جا رہے ہیں۔ یا خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بیشتر کا کام دور کی کوڑی لانا رہ گیا ہے۔ بلکہ دانشوری اسی چیز کا نام بن گئی ہے۔ (دور کی کوڑی شاعر کو لانے دیجیے!) اور غالباً یہی سبب ہے کہ اگر یہاں سو افراد سرگرم ہیں، تو ان میں سے (غالباً) ننانوے افراد معاشرے کو صحیح کرنا چاہتے ہیں۔ اختلافِ رائے اپنی جگہ، مگر یہ چیز، یعنی معاشرے کو درست کرنے کا معاملہ، خود اپنے منہہ سے بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ یعنی یہ

Read More »

کلچر کی چکی

نہر پر چل رہی ہے پن چکی دُھن کی پوری ہے کام کی پکی (اسماعیل میرٹھی) کلچر کی چکی رکتی نہیں۔ چلتی رہتی ہے۔ جب تک روئے زمین پر ایک انسان بھی موجود ہے، کلچر کی چکی چلے جائے گی۔ مگر ایک انسان سے کلچر تشکیل نہیں پاتا۔ روبنسن کروسو کوئی کلچر نہیں بنا سکا۔ اس نے اکیلے زندگی تو گزار لی۔ مگر جس جزیرے پر وہ تن تنہا زندہ رہا، وہاں کوئی کلچر وجود میں نہیں آیا۔ جو جزیرہ تھا، وہ ویسے کا ویسے ہی رہا، جیسا تھا۔ یعنی جب تک روئے زمین پر دو انسان (غالباً مرد اور

Read More »

موسیقار وزیر افضل ۔ ایک یاد

آج اخبار میں دیکھا، موسیقار وزیر افضل کل بروز منگل (7 ستمبر2021 ) 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ شکوہ نہ کر، گلہ نہ کر، یہ دنیا ہے پیارے، یہاں غم کے مارے ۔۔۔ سیو نی میرے دل دا جانی ۔۔۔ دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے دو ڈھائی برس پی ٹی وی لاہور میں بطور معاون پروڈیوسر اور اپرینٹس پروڈیوسر کام کیا تھا۔ فروری 1985 سے لے 1987 کے آخر تک۔ اس دوران انھیں کئی مرتبہ دیکھا۔ جب ایک دن کسی نے بتایا، یہ وزیر افضل ہیں۔ میں حیران رہ گیا۔ ان میں کوئی بات

Read More »

ٹرک، فوجی ٹرک اور سیاست

اپریل 1986 میں بے نظیر بھٹو کئی برس کی خودجلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آئیں۔ لاہور میں ان کا شاندار استقبال ہوا۔ وہ ٹرک پر سوار تھیں اور ایئر پورٹ سے ناصر باغ تک لوگوں کا جم غفیر ان کے ہمراہ تھا۔ کچھ وقت کے بعد جب یہ ہلچل تھمی، تو کسی صحافی نے پیر پگاڑہ سے بے نظیر بھٹو کی سیاست کے بارے میں پوچھا۔ پیر پگاڑہ نے جواب دیا: ابھی وہ ٹرک پر سوار ہیں، جب ٹرک سے نیچے اتریں گی، پھر ان سے بات ہو گی۔ اب اگر کوئی فوجی ٹرک پر سوار ہو جائے تو پھر

Read More »

سیاسی وابستگی کی نازک رگیں

اس معاملے کو جذباتی وابستگی کے ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ معاملہ جذبات ہی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یعنی ایسی سیاسی وابستگی جو جذبات پر مبنی ہو۔ جذباتی سیاسی وابستگی۔ صاف بات ہے کہ اس قسم کی وابستگی، عقل و استدلال اور معقولیت و شہادت کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی۔ کیونکہ جذبات، دلیل اور شہادت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اٹھا بھی نہیں سکتے۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی قسم کی سیاسی گفتگو میں جذباتی سیاسی وابستگی رکھنے والوں کے جذبات فوراً انگیخت ہو جاتے ہیں۔ وہ مشتعل ہو جاتے ہیں، بھڑک جاتے

Read More »

فوجی مداخلت یا سیاست دانوں کی حیلہ جوئی

جیسے فوجی مداخلت ایک حقیقت ہے، اسی طرح، سیاست دانوں کی حیلہ جوئی بھی ایک حقیقت ہے۔ پاکستان کے شہریوں کے اصل ’’مجرم‘‘ سیاست دان ہیں۔ یہ میرا گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے بہت سوچا سمجھا نقطۂ نظر ہے۔ گوکہ بہت کم لوگ ہیں، جو اسے ماننے پر تیار ہیں۔ عیاں رہے کہ میں ایک آئین پسند ہوں، اور آئین کی بالادستی، آئینی کی حکمرانی اور ایک آئینی حکومت کے حق میں ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بہت سے معاملات میں یہ صرف سیاست دانوں کی حیلہ جوئی ہے کہ وہ فوجی مداخلت

Read More »

خورشید ندیم اور جمہوریت کا تاریک مستقبل – میرا جواب

اگر آپ سنجیدہ سیاسی تحریر پڑھنا چاہتے ہیں، تو خورشید ندیم کے کالم پڑھا کیجیے۔ بگڑتے ہوئے حالات کے بارے میں ان کی تشویش بھی اصلی ہے، نقلی نہیں۔ قطع نظر اس سے کہ ان کا سیاسی جھکاؤ ہے یا نہیں، یا کس طرف ہے، آج (10 جولائی، 2021) روزنامہ دنیا میں چھپنے والا ان کا کالم میرے سامنے ہے۔ اس کے عنوان سے مایوسی ٹپک رہی ہے: جمہوریت کا تاریک مستقبل۔ جمہوریت کا مستقبل کیوں تاریک ہے، ان کی نظر میں اس کے پانچ اسباب ہیں۔ پہلا، سیاسی جماعتوں کی اقتداری سیاست۔ دوسرا، سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعت کے

Read More »

FTAs – Do they really free the trade?

In recent years free trade agreements have become fashionable. Thus, when two or more countries reach an agreement to allow free trade (because it is they which in the first instance imposed restrictions on free trade), it is publicized as a Free Trade Agreement. It is misleading and ridiculous! It’s not allowing free trade between the contracting countries, since there are more ‘strings’ here than the natural freedom allows! [This short paper tires to highlight some of the points of Free Trade Agreements that negate the very concept of Free Trade. It argues that governments do not need any agreement

Read More »

ہمارا سماجی و سیاسی مقدر کیسے بنتا ہے، اور بدلتا کیوں نہیں؟

۔ پہلی بات  یہ کہ میرے پیشِ نظر پاکستان ہے۔ ۔ اب آ جاتے ہیں، سوال کی طرف۔ ۔ سوال بظاہر سادہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر جیسا کہ سوال خود کچھ نہیں ہوتا، جس نوعیت کے جواب کی طرف یہ اشارہ کر رہا ہوتا ہے، وہ چیز اس کی اہمیت کا تعین کرتی ہے۔ ۔ اس مفہوم میں سوال مشکل قطعاً نہیں، ہاں، اس کا جواب نہایت پیچیدہ اور طویل ضرور ہو گا۔ ۔ مگر چونکہ یہ ایک مختصر تحریر ہے، لہٰذا، مختصر جواب پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔ ۔ یعنی جو چیزیں اور باتیں اس سوال کے جواب

Read More »

دو سو سال طویل خواب، مغل اشرافیہ اور پاکستانی اشرافیہ

۔ بایاں بازو، دایاں بازو، لبرل، اور جو بھی ایسے ہی دوسرے انداز ہائے نظر موجود ہیں، یہ سب کے سب اب تک انگریزوں کو رد و مسترد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ۔ یعنی انگریزوں کو گئے، ستر برس سے زیادہ ہو گئے، مگر یہ اب تک ان کو رگیدے جا رہے ہیں۔ ۔ (اور یہ چیز قابلِ غور ہے کہ اگر اتنے برس بعد بھی ان کو رگیدا جا رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہیں بہت گہرائی میں جا کر کچھ نہ کچھ ایسا ہے جسے اس کی جگہ سے ہلا گئے ہیں۔)

Read More »

پاکستانی فسطائیت اور ہٹلر کی فسطائیت

ایک پریشان خیالی تو یہ ہے کہ پاکستانی فسطائیت، فسطائیت نہیں، اور یہ کہ، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں، فسطائیت تو ہٹلر کی فسطائیت تھی۔ یا شاید وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی فسطائیت کو ہٹلر جیسی فسطائیت ہونا چاہیے۔ فسطائیت کی تعریف اور  اس کے بارے میں درسگاہی مطالعات سے قطع نظر، فسطائیت کو ایک رویے اور انداز ہائے نظر اور طرزِ عمل کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی تہہ میں، کہیں نہ کہیں، خود پارسائیت کا زعم کلبلا رہا ہوتا ہے۔ یہ ہر کسی کو غلط اور گمراہ گردانتی ہے۔ یہ نہ تو تاریخ

Read More »

آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے: ایک برتر قبیلے کے برتر اخلاقی شعور کی تحلیل

’آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے۔‘ ’آپ کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔‘ یا جیسے کہ سوشل میڈیا پر: ’آپ کو ایسی پوسٹ نہیں کرنی چاہیے۔‘ یہ ہیں وہ کلمات جو بعض اوقات یا اکثر اوقات ہر کسی کو کہیں نہ کہیں کبھی نہ کھی مختلف لوگوں سے سننے کو ضرور ملے ہوں گے۔ اور یقیناً اس ضمن میں لوگوں کا تجربہ مختلف رہا ہو گا۔ کسی کو ایسی باتیں کم اور کسی کو زیادہ سننے کو ملی ہوں گی۔ لیکن غالباً ایسا نہیں ہو گا کہ کسی کو

Read More »

سیاست دان ووٹ کو عزت دلوانے سے قاصر ہیں

ـ نواز شریف (پاکستان مسلم لیگ ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا مقدمہ، قضیہ یا نعرہ گمراہ کن تھا۔ ـ ویسے اب تو یہ نعرہ سیاسی افادیت بھی کھوتا نظر آ رہا ہے۔ ـ اگر اس نعرے کی معنوی ساخت پر غور کریں، تو معاملہ عیاں ہو جاتا ہے۔ ـ ووٹ کو عزت دو، یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے کسی سے کوئی چیز، یعنی عزت مانگی جا رہی ہے۔ ـ کس سے؟ ـ اقتدار کی سیاست کے سیاق و سباق کو سامنے رکھیں، تو پتا چلتا ہے کہ ووٹ کے لیے یہ عزت، قائمیہ (Establishment) سے مانگی جا

Read More »

پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور

یہ 2018ء کے عام انتخابات سے دو تین ماہ پہلے کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے یہ میرے لیے انتہائی مایوسی اور بے بسی کا دور تھا۔ بے بسی کا دور اس لیے تھا کہ جیسے یونانی دیوی کیساندرا کا معاملہ ہے کہ وہ جو پیشین گوئیاں کرتی ہے، وہ سچ ہوتی ہیں، مگر کوئی ان پر یقین نہیں کرتا۔ بلکہ میری مایوسی اول روز سے موجود تھی۔ جب 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں تحریکِ انصاف کا جلسہ ہوا، اس وقت سے مجھے احساس ہو گیا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ کوئی الہام جیسی چیز نہیں

Read More »

نقصان برائے نقصان

ایک چیز یہ ہوتی ہے کہ کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے اپنے فائدے کے لیے۔ چلیں اس نے خود کوئی فائدہ تو اٹھایا۔ مگر ایک اور چیز ہوتی ہے کہ کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے، مگر خود اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر نقصان کیوں پہنچایا؟ یہی چیز ہے جو اب تک مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ مگر اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، تو اس میں ہونے والی بہت سی چیزوں میں نقصان پہنچانے والے کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔

Read More »

لوگوں کو الزام دینا، ذمے دار ٹھہرانا بالکل غلط ہے

کیا اس ملک کے لوگوں کے کوئی اصول ہیں، کوئی اقدار ہیں، جن پر وہ یقین رکھتے ہوں؟ مگر یہ سوال ہی غلط ہے؟ لوگ تو غیرمنظم ہوتے ہیں۔ ان کی طاقت بکھری ہوتی ہے، منتشر ہوتی ہے، وہ تو ایک کلرک کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ جب وہ منظم ہو جاتے ہیں، جیسے کہ شہری تنظیموں کی صورت میں، سیاسی جماعتوں کی صورت میں، تو ان کی طاقت بھی منظم ہو جاتی ہے۔ اور وہ طاقت ور بن جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ لوگ بیشتر عملیت پسند یا عمل پسند ہوتے ہیں۔ یعنی وہ، جیسے بھی حالات ہوں،

Read More »

نظریۂ ضرورت یا آئین کی بالادستی

کچھ نظریات ایسے بھی ہیں، جن کا زور اس بات پر ہے کہ عمران خان کی حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یوں لوگوں کا تبدیلی کا شوق پورا ہو جائے۔ ایک اور دلیل یہ ہے، اور یہ سادہ لوح لوگوں کی طرف سے ہے، کہ حکومت کے لیے مدت پوری کرنا ضروری ہے، اور آئین کا تقاضا بھی ہے۔ یعنی حامی اور مخالف دونوں جانب سے مختلف طرح کی دلیلیں موجود ہیں، اس نظریے کے حق میں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی غیرآئینی حکومت کو کیوں قبول کیا جائے،

Read More »

کرپشن (بدعنوانی) کے خلاف سامنے آنے والے مختلف ردِ عمل

کرپشن بھی کئی دوسری چیزوں کی طرح قدیم سے موجود چلی آ رہی ہے۔ آج کی دنیا میں یہ جس طرح پھیلی ہوئی ہے، اس سے یہ باور ہوتا ہے، جیسے کہ اسے قبول کر لیا گیا ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اسے کبھی قبول نہیں کیا گیا۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ کرپشن نظام کا حصہ بن گئی، لازمی حصہ، اور اسے اس نظام کو چلانے والوں نے قبول بھی کر لیا۔ لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے، انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ وہ تو نظام اور کرپشن کو قبول کرنے

Read More »