Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

ایک بم ہزار غم

روسی ادیب چیخوف نے افسانے کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر اس میں بندوق کا ذکر آیا ہے تواس سے پہلے کہ افسانہ ختم ہو اس کا چل جانا ضروری ہے۔ پاکستان نے جب سے ایٹم بم بنائے ہیں، تب سے چیخوف کے کچھ پاکستانی پیروکاروں کا مسلسل کہنا ہے کہ اگر انھیں چلانا نہیں تو بنایا کیوں۔

یاد پڑتا ہے کہ واپڈا کے ایک ریٹائرڈ چیئر مین ریٹائرڈ جنرل تھے، وہ کہتے تھے کہ یہ بم کیوں بنا رکھے ہیں ماریں انھیں انڈیا پر۔ وہ کچھ تعداد بھی بتاتے تھے کہ کتنے بم بھارت کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ (انھوں نے اغلباً یہ بھی اندازہ ضرور لگایا ہو گا کہ پاکستان کے لیے کتنے بم کافی ہوں گے اور انھیں یہ اطلاع بھی ہو گی کہ بھارت کے پاس اس سے کہیں کم بم موجود ہیں، جو پاکستان کے لیے کافی ہوںگے!) ایک بہت نامور صحافی اور نظریۂ پاکستان کے ٹھیکیدار بھی پاکستان کے بموں سے بہت تنگ ہیں۔ وہ بھی چیخوف کے بتائے سبق کے مطابق ایک ایسا افسانہ لکھنا چاہتے ہیں، جس میں پاکستان کے پاس موجود تمام ایٹم بم بھارت پر استعمال کر دیئے جائیں۔

چلیں یہ تو خواہشات ہیں۔ مگر ہاں، شکر ہے کہ ایسے افراد، جن کی پاکستان میں کمی نہیں، بلکہ بہتات ہی ہو گی، معاملات کو فیصل کرنے کے مقام سے بہت نیچے ہیں۔ تاہم، اس خطرے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے لوگ کب تھوڑا سا اوپر آ جائیں۔ یہاں طالبان کا پاکستان میں برسرِ اقتدار آ جانا قطعاً مراد نہیں۔ گو کہ ان کے اقتدار پر قابض ہونے کا امکان چیخوف کے ماننے والوں سے کہیں زیادہ قوی ہو گیا ہے۔ صاف بات ہے کہ اگر طالبان کا دائرۂ عمل، جی ایچ کیو، اور پی این ایس کراچی اور پھر بہت سی دوسری حساس جگہوں تک بڑھ چکا ہے تو پاکستان کے پاس موجود ’ایٹم بم، ہزار غم‘ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔

کہانی بڑی دردناک اور عبرتناک ہے۔ اصل میں ایٹم بم بنانا ہمارے خمیر میں تھا۔ بھارت خواہ ایٹم بم بناتا یا نہ بناتا، ہمارے تو مقدرمیں لکھا تھا کہ ہم یہ کارنامہ ضرور سر انجام دیں گے۔ بھارت نے تو موقع فراہم کر دیا اور ہم بیٹھے بٹھائے ایٹمی طاقت بن گئے۔ نہ ہمیں گھاس کھانی پڑی، نہ بحرِ سائینس میں غوطے لگانے پڑے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں نے ہماری انا کو خوب کچوکے دیے۔ ہم تو ایک اسلامی ملک ہیں، اور بھارت ہم پر حاوی ہو جائے گا۔ کیا خبر کس رات بھارت پاکستان پر قبضہ کر لے۔ ہم ڈر گئے، اور ہم نے بھی کچھ ایٹم بم پھوڑ ڈالے۔

انا کو تسکین مل گئی۔ ہم ایک اسلامی طاقت تو تھے ہی، اب ہم ایک ’اسلامی بم‘ کے مالک بھی ہو گئے۔ یہ بڑے فخر کی بات تھی۔ وقتی طور پر یہ دلیل خوب چلی کہ اگر ہم نے ایٹمی دھماکے نہ کیے تو بھارت ہم پر چڑھ دوڑے گا۔ ہماری انا کو کچھ اور زیادہ تسکین مل سکتی تھی، اگر یوں ہوتا کہ بھار ت ابھی مئی 1998 تک بنگلہ دیش پر قابض رہتا، اور جیسے ہی ہمارے چھ دھماکے چاغئی میں گونجتے، بھارت بنگلہ دیش سے دُم دبا کر بھاگ جاتا۔ مگر بھارت نے بڑی بے وقوفی کی، پہلے ہی، بلکہ فوراً ہی، بنگلہ دیش سے رفو چکر ہو گیا۔

ہمیں ایک اور بخار نے بڑا تنگ کیا ہے: ہم نے اسلامی بم بنا لیا۔ جیسے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ کہتے ہیں کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، خواہ جعلی ہو یا اصلی، اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ بم، بم ہوتا ہے، اسلامی یا غیراسلامی نہیں۔ یہ کوئی بڑا سرخاب کا پر لگ جانے والی بات نہیں تھی کہ پاکستان پہلا اسلامی ملک تھا، جو ایٹمی طاقت بنا۔ بات تو جب ہوتی کہ پاکستان تما م انسانیت سوز ہتھیار تلف کرنے والا پہلا ملک ہوتا۔

چونکہ دنیا میں ایٹم بم بن اور چل چکا تھا اور پاکستان میں چیخوف کے مرید اتارو تھے کہ ایٹم بم نہ صرف بنایا جائے بلکہ اسے چلایا بھی جائے، تو ہتھیاروں کو تلف کرنے کی بات تو دور رہی، یہ لوگ ایسا سوچنے پر یہ بم خود پاکستان پر چلا دیتے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر طرح کے دوسرے بم پاکستانیوں پر چلائے جا رہے ہیں، بس ابھی ایٹم بم ان منچلوں کے ہاتھ نہیں آئے، ورنہ یہ بھی چل گئے ہوتے! سو اگر یہ نہیں ہوسکتا تھا تو کم از کم پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک ہی بن جاتا۔ یہ ہوتی سرخاب کے پر لگنے والی بات۔ اور دیکھیں آج کل کتنے اسلامی ملکوں کو سر خاب کے پر لگ رہے ہیں!

چیخوف کے پیروکار کچھ آ ئیڈیلسٹ سے بھی ہیں۔ کاش ایسا ہوتا کہ اگر یہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرنے کے وقت موجود ہوتے تو کچھ دیکھ سکتے اور کچھ سیکھ بھی سکتے۔ مگر ان کی افتادِ طبع ایسی ہے کہ اگر انھیں آج بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی میں تباہی کے اثرات دکھائے اور بتائے جائیں تو ان کا ردِ عمل یہ ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرو، نہیں تو ہم کریں گے!

تو اس صورت میں چیخوف کے پیروکاروں کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ افسانے اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایٹم بم بنانے پر پیسے اٹھتے ہیں۔ اسے چلانے پر بھی! اور بنانے سے بھی زیادہ پیسے اس کی حفاظت پر اٹھتے ہیں۔ اور طالبان جیسے چیخوف کے ’موت پسند‘ پیروکار، جو ہر وہ چیز چلا دینا چاہتے ہیں، جس کا ذکر افسانے میں آیا ہو یا نہ آیا ہو، ان سے ایٹم بم کی حفاظت پر تو بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے، اور ہو رہا ہے۔

پھر آج تک کوئی امریکی ایسا ایٹم بم نہیں بنا سکا جو اپنے بنانے کی لاگت کے ساتھ ساتھ اسے چلانے کی لاگت بھی خود ہی اٹھا سکے۔ ہر طرح کے بموں کے اخراجات، چاہے یہ اسلامی ہوں یا غیراسلامی یا کسی اور نام کے، بے چارے خواص کے الّلوں تللوں کے مارے عام شہریوں کو ہی اٹھانے پڑتے ہیں۔ مراد یہ کہ ہر طرح کے بموں سمیت ایٹم بموں کے خرچ کا غم بھی شہریوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جب یہ بم چلتے ہیں تو ان کی تباہی بھی سب سے زیادہ ان شہریوں کے حصے میں ہی آتی ہے۔

اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایٹم بم یہ نہیں دیکھتے کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو، کون عیسائی۔ ایٹم بم کا نام اسلامی رکھ دینے سے یہ نہ تو مشرف بہ اسلام ہو تا ہے، نہ ہی مسلمانوں کی شناخت کے قابل۔ یہ بم، بم ہی رہتا ہے اور تباہی اپنی فطرت کے مطابق ہی لاتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ بم ریاستوں، سرحدوں، قوموں اور مذہبوں کی منطق نہیں سمجھتے اور اپنے اثرات بلا امتیاز اپنی پہنچ کے مطابق ہر جگہ پہنچاتے ہیں۔

چیخوف کے چیلوں کو ایک چیز اور بہت تنگ کرتی ہے۔ اور وہ ہے امریکہ۔ یہ امریکہ کو ہمارے بم کا غم کیوں کھائے جا رہا ہے: تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ وہ شاید اس واقعے سے واقف نہیں جس سے ہو سکتا ہے کہ امریکہ بھی ناواقف ہو۔

کسی پاگل خانے میں ایک پاگل ایک اونچے درخت پر چڑھ بیٹھا۔ بہت سمجھایا گیا کہ بھائی نیچے اُتر آ۔ اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاگل خانے کے سب ڈاکٹر اور ملازمین اپنی اپنی ترکیبیں لڑا کر ناکام ہو گئے۔ اس مایوسی کے عالم میں ایک اور پاگل نے اپنی خدمات پیش کیں اور یقین دلایا کہ وہ اس پاگل کو نیچے اتار سکتا ہے۔ آ بھائی تو بھی اپنی عقل آزما لے۔ پاگل نے ایک قینچی منگوائی اور درخت پر چڑھے پاگل کو دکھائی: نیچے آتا ہے یا کاٹوں درخت۔ درخت پر چڑھا پاگل سیدھا نیچے اتر آیا۔ سب کے سب حیران اور پریشان، یہ پاگل ہی ہم سے زیادہ عقل مند نکلا۔

درخت سے نیچے اترنے والے پاگل سے پوچھا گیا، بھائی ہم نے تمہیں اتنا سمجھایا تم نیچے نہیں اترے۔ اس پاگل کی بات تمیں فوراً سمجھ آ گئی۔ وہ بولا: کہہ رہا تھا درخت کاٹ دوں گا، پاگل ہے کیا پتہ کاٹ ہی ڈالتا!

کاش ہم بھی کسی ایسے پاگل کی بات ہی سمجھ اور مان لیں!

[یہ تحریر اردو ویب سائیٹ، ’’ہم آزاد‘‘ کے لیے لکھی گئی تھی، اور 7 اگست 2011 کو مکمل ہوئی۔]
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments