Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

پارلیمانی بالادستی کا ڈھونگ ـ ایک تازہ مثال

روزانہ اخبار دیکھتے ہوئے درجنوں ایسے معاملات نظر سے گزرتے ہیں، جن کی نشاندہی کرنے کو جی چاہتا ہے؛ جن پر لکھنے اور ان کے پیچھے چھپی کہانیوں کو بے نقاب کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اور پاکستان کی ریاستی اشرافیہ اور طفیلیے سیاست دان، جو گل کھلاتے رہتے ہیں، ان پر خانہ فرسائی ضروری خیال کرتا ہوں۔ مگر اور بہت سے اہم اور ضروری معاملات توجہ چاہتے ہیں، اور میں ان پر مرتکز رہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ ان روزانہ کی گل فشانیوں سے قطع نظر کر کے کچھ قابلِ قدر کام کروں۔

یوں بہت کچھ ایسا ہے، جسے کڑے دل کے ساتھ، اس پر بغیر کچھ کہے، بغیر کچھ لکھے، چھوڑنا پڑتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات ایسا کچھ سامنے آ جاتا ہے کہ صبر نہیں ہوتا، اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
آج ایسا ہی ایک معاملہ درپیش ہے۔

درج ذیل خبر ملاحظہ کیجیے، اور روئیے پاکستان کے مقدر کو جہاں ریاستی اشرافیہ کے نخرے شہزادوں سے بھی بڑھ کر ہیں، اور جہاں، دیکھیے اور سر دھنیے، کہ پارلیمانی بالادستی کا ڈھونگ کس طرح  رچایا جا رہا ہے۔


[روزنامہ جنگ، لاہور، 5 فروری، 2014 ]
اگر چیئرمین سینیٹ تہران کانفرینس میں شرکت نہ کرنے جائیں تو کیا اس سے پارلیمانی بالادستی کو زک پہنچے گا! جبکہ انھوں نے وہاں سیر کرنے کے علاوہ کیا کرنا ہے جا کر۔ اور ان کے اس دورے سے پارلیمان کی بالادستی کا کیا تعلق بنتا ہے! دفترِ خارجہ نے اپنی ذمے داری نبھائی اور جو ان کا کام بنتا ہے، اسے پورا کیا؛ یعنی انھوں نے ایران اور دنیا کے بیچ جو تنازعہ چل رہا ہے، اس کے پیشِ نظر چیئرمین کو مشورہ دیا ہو گا کہ وہ تہران نہ جائیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو بھی اس معاملے کا پارلیمان کی بالادستی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا پارلیمانی بالادستی چیئرمین کے دوروں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یا اس کا تعلق اپنی مرضی سے جہاں چاہو دورہ کرو، جو چاہے کرو، جیسے اختیار سے ہے!

مزید یہ کہ سیکریٹری خارجہ بھی بزدل افسر ثابت ہوئے اور نہ صرف چٹھی واپس لے لی، بلکہ معذرت بھی کی۔ اگر وہ چمچہ صفت نہ ہوتے، اور اپنے فرائض کا درست احساس رکھتے تو نہ تو معذرت کرتے، نہ چٹھی واپس لیتے۔ انھوں نے اپنا، یعنی دفترِ خارجہ کا فرض پورا کر دیا تھا اور اس پر قائم رہتے۔ آگے چیئر مین سینیٹ کی مرضی، وہ جاتے یا نہ جاتے۔ مگر پاکستان میں ایسے افسروں کا کال ہے، بلکہ ایسے انسان ناپید ہیں، جو باضمیر اور اپنے فریضے کے ساتھ مخلص اور دیانت داری سے اسے نبھانے والے ہوں۔ پھر یہ بھی کہ اخلاقی جرأت کے حامل بھی ہوں۔

اور پھر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی خود سروں کو روک کون سکتا ہے! یہ بے اصولے اور مطلق العنان خصلت کے لوگ ہیں۔ یہ آئین، قانون اور ریاستی اداروں کو اپنے تابع سمجھتے ہیں۔ خود کو بادشاہ اور کسی کو جوابدہ نہیں سمجھتے۔

آخراً یہ کہ اگر چیئرمین سینیٹ کو تہران کے دورے سے روکنے کا مشورہ دینا پارلیمانی بالادستی میں ایگزیکٹو (انتظامیہ) کی مداخلت ہے، تو پھر نہ صرف دفترِ خارجہ کو لپیٹ دینا چاہیے، بلکہ تمام سرکاری دفاتروں، وزارتوں اور محکموں کو بھی ختم کر دینا چاہیے۔ یوں نہ رہے گا بانس، نہ بجے کی بانسری۔ یعنی نہ ایگزیکٹو (انتظامیہ) رہے گی، نہ پارلیمانی بالادستی میں کوئی مداخلت کرے گا۔ بس پارلیمان اپنی بالادستی کے محل میں تنہا بیٹھ کے ڈنڈے بجایا کرے گی!
0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments