Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

Dr Khalil's Intellectual Space

Pak Political Economy +

سیاسی جماعتوں کی ’’بے بسی‘‘ کا حل

سیاسی قضیے:  27جون، 2018

آج کل سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے اپنے اپنے امیدوار نامزد کر رہی ہیں اور یہ عمل مکمل ہونے کے قریب ہے۔ ان کے فیصلوں پر مختلف سمتوں سے مختلف ردِ عمل سامنے آ رہے ہیں۔ جن امیدواروں کی نامزدگی نہیں ہوتی، وہ بھی سیخ پا ہیں۔ جو کارکن دیکھ رہے ہیں کہ ان کی جماعت میں یک دم نازل ہونے والوں کی نامزدگی ہو رہی ہے، اور یوں دوسروں کی حق تلفی کی جا رہی ہے، وہ بھی سراپا احتجاج ہیں۔

بالخصوص تحریکِ انصاف نے اپنے کارکنوں کی جو تربیت کی تھی، کارکن اب اس سے کام لے رہے ہیں۔ وہ تحریک کے گڑھ، ’’بنی گالا‘‘ کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں، اور کسی غیرمتوقع صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے وہاں رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

اس دباؤ اور احتجاج سے مجبور ہو کر مختلف جماعتیں، امیدوار تبدیل بھی کر رہی ہیں، اور امیدوار تبدیل کرنے یا نہ کرنے کے ضمن میں مختلف غلط صحیح دلائل بھی دے رہی ہیں۔

ایک تجزیہ کار کی تشخیص کے مطابق چونکہ سیاسی رہنما عزت و احترام کے حامل̷ قابل نہیں رہے، لہٰذا، ان کے اور ان کی جماعتوں کے فیصلے تسلیم نہیں کیے جا رہے۔

اس دھماچوکڑی کی جو بھی وجہ ہو، منفی یا مثبت، اس سے قطع نظر، میں یہاں ایک ایسا حل تجویز کرنا چاہتا ہوں، جو سیاسی جماعتوں کو ان کی موجودہ ’’بے بسی‘‘ سے باہر نکالنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہ حل محض وظائفی ہے؛ یعنی یہ سیاسی جماعتوں کو اپنی ذمے داریاں اور وظائف بہتر انداز میں نبھانے کے قابل بناتا ہے۔

یہ حل اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ان کی اس بے بسی اور ان کے فیصلوں پر ان کے کارکنوں کے احتجاج کا سبب کیا ہے؛ غلط ہے یا درست۔ ان کا سیاسی فلسفہ کیا ہے؛ وہ کسی سیاسی فلسفے کی حامل بھی ہیں یا نہیں۔ وہ دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں، یا بائیں بازو سے۔

آگے چلنے سے قبل، ایک سبب کا ذکر ضروری ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اصول پسند ہوتیں، اخلاقی، سماجی اور سیاسی اقدار کی حامل ہوتیں، تو انھیں یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔ کوئی ان کے فیصلوں پر ناک بھوں نہیں چڑھاتا اور ان پر صدقِ دل سے عمل درآمد کے لیے تیار رہتا۔ مگر سچ بات یہ ہے کہ سب کی سب جماعتیں اصول فروش، موقع پرست اور اقتدار پسند ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہر کوئی ان کے قول و عمل پر معترض ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے۔

:حل کیا ہے

جہاں تک امیدواروں کی نامزدگی کا تعلق ہے، سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار اس وقت طے کرتی ہیں، جب انتخابات کے انعقاد کا ڈول ڈلتا ہے۔ جیسا کہ اب انتخابات 25 جولائی کو منعقد ہوں گے، اور انتخابی مراحل جون کے اوائل سے شروع ہوئے، تو نامزدگیاں بھی شروع ہو گئیں۔ یعنی سیاسی جماعتیں، انتخابات کی آمد سے دو تین ماہ قبل امیدواروں کی نامزدگی کا عمل شروع کرتی ہیں۔ اس لیے بھی کیونکہ اب انھیں اپنے امیدواروں کی فہرست، الیکشن کمیشن میں بھی جمع کروانی ہوتی ہے۔

یہی وہ عرصہ ہوتا ہے، جس کے دوران اور جس کے قریب، مختلف سیاسی امیدوار ایک جماعت چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ یا مختلف جماعتیں، جیت کے قابل سمجھے جانے والے امیدواروں کو اپنی طرف بٹورتی ہیں۔

فرض کیجیے اگر کوئی سیاسی جماعت انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی نامزدگی، آئندہ انتخابات سے پانچ برس، یا چار، یا تین، یا کم از کم ایک برس قبل کر دے، تو یہ دھماچوکڑی نہیں مچے گی، جو اس وقت مچی ہوئی ہے۔

بلکہ میں اس بات پر زور دوں گا کہ ہر جماعت، خواہ وہ حکومت میں ہو یا حکومت سے باہر، اپنے انتخابی امیدواروں کی نامزدگی انتخابات سے پانچ برس قبل ہر صورت میں کر دے۔ یوں نہ صرف یہ کہ حلقے کے لوگوں اور ووٹروں کو پتا ہو گا کہ پانچ برس بعد ہونے والے انتخابات میں ان کے حلقے سے کسی جماعت کا امیدوار کون ہے، بلکہ امیدوار کو بھی پتا ہو گا کہ اسے پانچ برس ایک آزمائش سے گزرنا ہے، اور اگروہ کہیں کسی کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اس کے حلقے کے لوگ اور ووٹر اس سے ناخوش اور ناراض نہ ہو جائیں۔

مزید یہ بھی کہ وہ امیدوار اںتخابات سے قبل، اپنے پانچ برس نہایت ذمے داری کے ساتھ گزارے گا، اور جیتنے کی صورت میں بھی اسے اسی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ اس طرح، جماعت کی تبدیلی کی برائی کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

بلکہ ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت پانچ برس قبل اس بات کا تعین بھی کر دے کہ حکومت میں آنے کی صورت میں کس امیدوار کو کیا وزارت دی جائے گی، اور کسے کس شعبے کی مشاورت سونپی جائے گی۔ یعنی پوری کابینہ بھی پہلے سے فیصل کر دی جائے۔

ایک صورت جو ممکنہ طور پر کچھ مسائل پیدا کر سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اتنی نشتیں نہیں جیت پاتی کہ وہ تنہا حکومت بنا سکے، تو پھر کیا ہو گا۔

میرے خیال میں اس سے کوئی مسئلہ سر نہیں اٹھائے گا۔ ویسے بھی سیاسی جماعتیں اتحاد بناتی ہیں، اور اس ضمن میں لین دین کرتی ہیں۔ ہاں، اس تجویز پر عمل درآمد کی صورت میں اتنا فرق ضرور پڑے گا کہ ہر جماعت جو کسی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے کچھ بھی لین دین کرتی ہے، وہ اپنے انھی امیدواروں کو کوئی وزارت اور مشاورت دلا سکے گی، جنھیں وہ قبل ازیں نامزد کر چکی ہے۔

ان دونوں تجاویز کو قانون سازی کے ذریعے انتخابات سے متعلق قواعد و ضوابط کی حیثیت دے کر، انتخابات کے عمل کو شفاف اور موثر بنایا جا سکتا ہے۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments